غزل
سب سے اَنجان کِیا خود سے شناسا کر کے
کیا مِلا اُس کو مِری ذات تماشا کر کے
اِس قدر بھی کوئی احساس سے عاری ہو گا؟
وہ بہت خوش ہے مجھے شہر میں رُسوا کر کے
وہ مجھے دے نہ سکا میری وفا کا بدلا
میں ہی شرمندہ ہُوا اُس سے تقاضا کر کے
ہاتھ وہ ملتا ہے اب کھو کے رفاقت میری
خود بھی رہتا ہے اکیلا، مجھے تنہا کر کے
اِس قدر ٹوٹ کے چاہے نہ کسی کو کوئی
جس طرح لُٹ گیا میں اُس پہ بھروسا کر کے
عشق میں فکرِ زیاں ہی نہیں جائز ورنہ
کیا نہیں کھویا فقط تیری تمنّا کر کے
ترکِ دنیا سے بھی پائی نہیں منزل کوئی
لُٹ گیا میں تو یہاں خواہشِ دنیا کر کے
شاعر علی شاعر