loader image

MOJ E SUKHAN

سعد جہانگیر؛ روح کی مسافت کا شاعر

سعد جہانگیر؛ روح کی مسافت کا شاعر

انجم سلیمی

جھنگ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر سعد جہانگیر کی شاعری نئے دست خط کا ایک ایسا رنگ ہے جو دل کی پرتیں چاک کرتا ہے اور لفظوں میں وہ خاموشیاں رکھتا ہے جو اکثر کہی نہیں جاتیں، صرف محسوس کی جاتی ہیں۔
تیری یادوں کے جتنے پنچھی تھے
میں سبھی کو اچھال آیا ہوں
یہ صرف ایک مصرع نہیں، یادوں سے رہائی کی ایک تھکی تھکی کوشش ہے، جیسے ماضی کے پنچھی اب دل کے قفس میں نہیں بلکہ فضا میں کہیں کھو گئے ہیں۔
مجھے تلاش نہیں ہے نئی محبت کی
نیا بدن تو مجھے راس بھی نہیں آتا
سعد کی شاعری نئی محبت کے انکار سے زیادہ پرانی محبت کی خوشبو کو سینے سے لگائے رکھنے کا اعلان ہے۔ وہ جذبات کی اصل شکل کو جانتے ہیں، اور لفظوں میں سچائی کے ساتھ ڈھالتے ہیں۔
جیسے نکلے تھے خلد سے آدم
ایسے دل سے ہمیں نکالا گیا
یہ اشعار ہمیں اُس لمحے کا سامنا کرواتے ہیں جب انسان دل سے بےدخل کیا جاتا ہے—یہ محبت میں جلاوطنی کی روداد ہے، مگر کتنے سکون سے بیان کی گئی ہے۔
سعد جہانگیر کی شاعری میں اداسی بھی ایک فنکار لگتی ہے، جو خود کو مکمل خامشی سے ظاہر کرتی ہے۔ ان کے ہاں زخم صرف خون نہیں کرتے، خوشبو بھی دیتے ہیں۔ جدائی صرف دکھ نہیں دیتی، ایک نئی آنکھ بھی عطا کرتی ہے۔
ان کی شاعری میں ماں کا لمس بھی ہے، ہاسٹل کی اداسی بھی، شہر کی بےرخی بھی، اور دیہات کا بہتا ہوا دریا بھی۔
یہ شاعری صرف پڑھنے کے لیے نہیں، دیر تک دل میں رکنے کے لیے ہے
ان کی شاعری میں کسی نہ کسی سطح پر تنہائی، محبت اور فکری سفر کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے کہ انہوں نے اپنے اشعار میں ماضی کی یادوں، لمحوں کی لذتوں اور دل کی گہرائیوں کا ذکر کیا ہے، وہ قاری کو ایک نئے سفر پر لے جاتے ہیں جہاں ہر لفظ ایک معنی کا حامل ہوتا ہے اور ہر خیال ایک نئے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔
سعد جہانگیر کی شاعری صرف اشعار کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک دردمند دل کا آئینہ ہے۔ اس میں ماضی کے زخم، تنہائی کی مہک، اور محبت کی نرمی ایک ساتھ بولتی ہیں۔ وہ شاعر جو اپنی ذات کے تاریک گوشوں میں اتر کر قاری کے دل میں روشنی پیدا کرتا ہے—یہی وہ وصف ہے جو سعد کو اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز بناتا ہے۔ ان کے ہاں دکھ جمال بن کر اُبھرتا ہے، اور محرومی ایک نئے شعور کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہ شاعری ایک مکمل انسانی تجربہ ہے—اداسی، لطافت، بغاوت اور خامشی کے درمیان ٹکی ہوئی۔
کچھ منتخب اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں دوستو
تیری یادوں کے جتنے پنچھی تھے
میں سبھی کو اچھال آیا ہوں
ایک نیکی ملی تھی ورثے میں
وہ بھی دریا میں ڈال آیا ہوں
مجھے تلاش نہیں ہے نئی محبت کی
نیا بدن تو مجھے راس بھی نہیں آتا
میں جب ہرا تھا تو سب آ رہے تھے سائے میں
میں خشک ہوں تو کوئی پاس بھی نہیں آتا
جیسے نکلے تھے خلد سے آدم
ایسے دل سے ہمیں نکالا گیا
پہلے کاٹے گئے ہمارے پر
پھر فضا میں ہمیں اچھالا گیا
یوں جڑا ہوں میں اپنے یار کے ساتھ
جیسے کوئی دیا مزار کے ساتھ
اس کے دشمن بھی آ نکلتے ہیں
وہ بلاتا ہے اتنے پیار کے ساتھ
ابھی ابھی تو چلی تھی ہمارے وصل کی ریل
یہ کون شخص ہے زنجیر کھینچنے والا
مجھ ایسے شخص کو دیکھو کہ جس کے سب احباب
چراغ بجھنے سے پہلے ہی خیمہ چھوڑ گئے
جبین چومتی ماں کو کہاں خبر اس کی
کٹا ہے کیسے سفر ریل میں ٹکٹ کے بغیر
جو بدن کل تلک تھے مخمل میں
آج لٹکے ہوئے ہیں مقتل میں
گھر میں ملحد کے بھی برستا ہے
کوئی وصفِ خدا ہے بادل میں
وہ اگر جانِ جاں نہیں ہوتی
زندگی رائیگاں نہیں ہوتی
مجھ پہ کستے ہیں وہ بھی آوازے
جن کے منہ میں زباں نہیں ہوتی
ہاسٹل کے بہت مسائل ہیں
ایک یہ ہے کہ ماں نہیں ہوتی
ہے آلام و مصائب سے یہ دل سرشار پہلے ہی
محبت کے نظر آنے لگے آثار پہلے ہی
نہ جانے کب کسی بھی سمت سے وہ یاں چلا آئے
گرا رکھے ہیں میں نے یہ در و دیوار پہلے ہی
دل لگانے کی تمنا ہے خدا خیر کرے
زخم کھانے کی تمنا ہے خدا خیر کرے
جن کا سایہ بھی حجابوں میں چھپا رہتا ہے
اُن کو پانے کی تمنا ہے خدا خیر کرے
ہال آوازوں سے بھر جایا کرتا تھا
جب میں کوئی شعر سنایا کرتا تھا
وہ لڑکی تو لیکچر سننے آتی تھی
اور میں اس کو دیکھنے جایا کرتا تھا
تیرے لوٹ آنے سے یوں لوٹ کے آئیں خوشیاں
جیسے یعقوب کی آنکھوں کی ضیا لوٹ آئی
نہ یہ دنیا نہ ہی دنیا کے خزانے مانگے
دل جو مانگے ہے تو بس یار پرانے مانگے
اپنے ہاتھوں میں محبت کو اٹھا لایا میں
مجھ سے محشر میں جب اعمال خدا نے مانگے
ہر طرف خوشبوئیں ہیں ، سبزہ ہے
کون اس دشت میں سے گزرا ہے
نیکیاں اس لیے بھی کم ہیں مری
میرے گاؤں کے پاس دریا ہے
تب کہیں جاں میں جان آنے لگی
ہاتھ میں جب کمان آنے لگی
موت کی سمت بڑھ رہا تھا میں
شاعری درمیان آنے لگی