loader image

MOJ E SUKHAN

سلونی شام کے آنگن میں جب دو وقت ملتے ہیں

غزل

سلونی شام کے آنگن میں جب دو وقت ملتے ہیں
بھٹکتے ہم سے ان سایوں میں کچھ آدھے ادھورے ہیں

سمندر ہے ہمارے سامنے مغرور و خود سر سا
ہمیں اک پل بنا کر فاصلے سب پار کرنے ہیں

اندھیروں سے اجالوں تک اجالوں سے اندھیروں تک
سدا گردش ہی گردش ہے کہاں جانے وہ پہنچے ہیں

زمیں کے پھول سونے اور چاندی سے نہیں کھلتے
کسی محنت کی خوشبو سے سبھی آنچل مہکتے ہیں

وہی ہیں سانپ وشکنیا کو ڈس کر پالنے والے
مری نگری کو رہ رہ کر وہ اب بھی زہر دیتے ہیں

ہر اک احساس کی پہچان خط و خال کھو بیٹھی
وہ اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے گم سم سے رہتے ہیں

دیپک قمر

ایک تبصرہ چھوڑیں