غزل
سورج بھی سر پہ ہو تو اسے سائباں کہیں
اب دشت ہی کو آؤ ہم اپنا مکاں کہیں
ہوں ایک آسمان و زمیں جس جگہ وہاں
سمجھیں کسے زمین کسے آسماں کہیں
رندوں کو میکدے کی سیاست سے کیا غرض
جو بھی پلائے ہم اسے پیر مغاں کہیں
چپ بیٹھ کر بھی دوستو کٹتی کہاں ہے رات
اس خاموشی میں کیوں نہ کوئی داستاں کہیں
جب وہ ہر ایک شے میں ہے جلوہ نما تو پھر
کیا بات ہے کہ لوگ اسے بے نشاں کہیں
کھلتا نہیں کہ کون ہمارا حریف ہے
آتا نہیں سمجھ میں کسے مہرباں کہیں
ذرہ بھی ہے لیے ہوئے صحرا کی وسعتیں
قطرہ بھی ہے وہ بحر جسے بے کراں کہیں
بے ساختہ نکل تو پڑی ہے صدائے دل
اب لوگ اس کو گیت کہیں یا فغاں کہیں
خاورؔ جب اس کی گود کے پالے ہوئے ہیں ہم
پھر کیوں نہ اپنے دیس کو ہم اپنی ماں کہیں
بدیع الزماں خاور