loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 12:13

سچ زبانوں پر ہو تو شانوں پہ سر رہتے نہیں

سچ زبانوں پر ہو تو شانوں پہ سر رہتے نہیں
پتھروں کے شہر میں شیشے کے گھر رہتے نہیں

چھوڑ کر مجھ کو چلا ہے تو پتا ہو گا اُسے
ریگ زاروں میں کبھی نازک شجر رہتے نہیں

چند لمحوں کے لیے ملنا ہے بس ان کا نصیب
دیر تک شب اور سورج ہم سفر رہتے نہیں

کوئی کتنا بھی ہو پیارا، ہو ہی جاتا ہے جدا
زخم جتنے بھی ہوں گہرے، عمر بھر رہتے نہیں

اُس کی آندھی کی طرح فطرت بڑی پُر جوش تھی
ایسے موسم میں دیے ہوں یا شرر، رہتے نہیں

یا تو ہو جاؤ مرے یا چھوڑ دو میرا خیال
درمیانے سے مراسم معتبر رہتے نہیں

توڑ لینا شاخ سے خود اُن کو بہتر ہے نعیم
دیر تک پک کر درختوں پر ثمر رہتے نہیں

محمد نعیم جاوید نعیم

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم