سچائی
آؤ بچو سامنے بیٹھو
قصہ ایک سناؤں تم کو
جنگل میں اک بھوک کا مارا
لکڑی لانے گیا بیچارہ
جنگل میں تھی ندی گہری
گر گئی بے چارے کی کلہاڑی
کیا کروں دل میں سوچ رہا تھا
اتنے میں اک آدمی آیا
کہنے لگا کیوں تم ہو فسردہ
کچھ تو بتاؤ کیا ہے صدمہ
بولا وہ میں کیا کہوں بھائی
میں نے کلہاڑی اپنی گنوائی
اس ندی ہی میں وہ پڑی ہے
حالت میری آہ بری ہے
ندی میں تب کود گیا وہ
کیسا بہادر انساں تھا وہ
مل گئی ندی میں وہ کلہاڑی
غوطہ مارا اور نکالی
دیکھا تو وہ سونے کی تھی
پوچھا کیا ہے یہی تمہاری
بولا یہ نہیں میری بھائی
ڈبکی اس نے اور لگائی
اب لوہے کی اس نے نکالی
پھر پوچھا کیا یہ ہے تمہاری
دیکھ کے یہ خوش ہو گیا اس کو
اور کہا ہاں یہی تھی دیکھو
لے کر خوش خوش گھر کو سدھارا
کتنا سچا تھا بیچارہ
دیکھ کے سونے کی وہ کلہاڑی
اس کی نیت ذرا نہ بدلی
جی میں اگر لالچ کچھ ہوتا
سونے کی ہرگز نہ وہ کھوتا
برا ہے لالچ سچ ہے اچھا
جوہرؔ کا بھی یہی ہے کہنا
بنے میاں جوہر