غزل
سچائی کبھی اپنی صفائی نہیں دیتی
محسوس تو ہوتی ہے دکھائی نہیں دیتی
مظلوموں کی فریاد پہ لرزاں ہے فلک تک
اور اہل سیاست کو سنائی نہیں دیتی
یوں ظلم و تشدد کے اندھیرے ہیں کہ توبہ
جینے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی
ہنس ہنس کے ستم فاقوں کے سہہ لیتی ہے لیکن
خوددار غریبی تو دہائی نہیں دیتی
دل ساگر افکار میں ڈوبا ہو تو عالمؔ
کانوں کو مزہ نغمہ سرائی نہیں دیتی
عالم نظامی