شاز ملک کی شاعری میں نئے موضوعات کے ساتھ ساتھ کچھ متضاد اشیاء بھی یکجا ہو تی دکھائی دیتی ہیں جن کے متعلق فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ وہ عشق حقیقی کے سحر میں مبتلا ہیں یا پھر عشقِ مجازی انہیں نئی کھوج کرا رہا ہے، شاز ملک کی شاعری میں جہاں تصوف کا عکس دکھائی دے رہا ہے تو وہیں اِن کی شاعری روایتی عشق و محبت کے ساتھ ساتھ ہجر و فراق کاورد بھی کرتی دکھائی دیتی ہے، بعض جگہ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ شاز ملک علمِ دنیاوی کے ساتھ ساتھ علوم دینوی کی فاضل بھی ہیں، شاز ملک کی شاعری اِنہیں مشکل پسند بھی دکھا رہی ہے تو دوسری طرف اِن کی سادہ مزاجی کا اعلان بھی کر رہی ہے اگر ایک جانب وہ اپنی محبت کے لیے کوچہِ رقیب میں بھی سر کے بل جانے کو تیار ہیں تو دوسری طرف دہر سے بیزار بھی دکھائی دیتی ہیں، شاز ملک کی شاعری میں اکیسوی صدی کی عورت اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ بھی موجود ہے میں یہ تمام باتیں اْن کے اشعار سے بھی ثابت کروں گا۔
شاز ملک کی سب سے اہم اور قابلِ تذکرہ بات یہ ہے کہ وہ دیارِ غیر میں رہتے ہوئے بھی مشرقی رنگ سے رچی ہوئی صاف شفاف با کردار اور سچ گو شاعرہ ہیں
ان کے قول و فعل میں کہیں بھی تضاد دکھائی نہیں دیتا، شاز ملک ہمدرد دل رکھنے والی ایک قدآور شاعرہ ہیں، شاز ملک کا مطالعہ گو کے کم ہے مگر اِن کی روح میں مشرقی اور روحانی جاذبیت کے رنگ رچے بسے ہیں شاز ملک اپنے ہونے پر مکمل یقین رکھتی ہیں یہی اعتماد اِنہیں مشکل زمینوں پر سوچوں کی کاشتکاری کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔شاز ملک روایت کی امین شاعرہ ہیں یہ اشعار دیکھیں اور مضامین آفرینی پر ذرا سر دھنیں۔
ہوا کچھ تتلیوں سے پوچھ کر مجھ کو بتا دینا
مرے اشعار کیا تقدیر کے پرکار تک پہنچے
ہجر کے بازار سے دل کی گلی تک
غم کے قدموں میں خوشی بیٹھی ہوئی ہے
روح تک کس کو رسائی ہے کوئی کیا جانے
اور لگا دیتے ہیں مجبور بدن کی قیمت
کہا جاتا ہے کہ راکھ میں دبی ہوئی چنگاریوں کو افسردہ مت سمجھو کبھی نہ کبھی یہ اپنا اثر دکھلا دیتی ہیں بالکل اِسی طرح والدین کی تربیت گھر کا ماحول اور زمانے کی ٹھوکریں انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہیں، شاز ملک نے بالکل اِسی طرح اپنی زندگی کو اِس رنگ میں ڈھالا جو اِن کی روح کی طلب تھی اور شاز ملک نے دل اور روح کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا اور یہ اہتمام اِس قدر عمدہ ہوا کہ ِان کا تخیل جھوم اْٹھا، شاز ملک کے جسمانی اہم ترین وزراء دل دماغ اور روح ایک نکتے پر ہیں، جب یہ تینوں مل بیٹھیں تو پھر ایسے اشعار کا جنم نا گزیر ہو جاتا ہے،شاز ملک کتنی آسانی سے کہہ رہی ہیں۔یہ چند اشعار دیکھیں اِن میں بھی مضامین آفرینی اور الفاظ کی بنت شاز ملک کے شعری اسلوب کو اجاگر کر رہی ہے۔
روٹھ جانے اور منانے کی ہمیں فرصت نہیں
اَب کسی سے جیت جانے کی ہمیں حسرت نہیں
عمر گزری ہے مری یوں تو سفر میں لیکن
تم نے دیکھے ہی نہیں پاؤں کے چھالے میرے
اِس بار اْس نے خون سے لکھا ہے خط مجھے
اِس بار مجھ کو دھوکا بھی دھوکا نہیں لگا
میں ہوں خاموش دل ہی بولے گا
بے زبانی کی ترجمانی میں
انسانی تشکیل میں مذہب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر مذہبی کردار نہیں تو انسان کبھی ترقی نہیں کر سکتا زندگی کے ہر ہر قدم پر اس کی اہمیت اور ضرورت مسلم ہے، شاز ملک کے کان میں بھی سب سے پہلے جو آواز پڑی وہ اللہ اکبر کی تھی جسے سن کر یقینا شاز ملک کی روح نے سبحان اللہ کہہ کر اپنے خالق کے محبوب پر درود پڑھا ہوگا کیونکہ شاز ملک کی شاعری میں یہ رنگ بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، شاز ملک کا نعتیہ اور حمدیہ اسلوب سامنے لانے کے لیے اِن کے کچھ اشعار پیش کروں گاجو یقینا میری بات کی دلیل ہوں گے، ِان اشعار کے آئینے میں شاز ملک کا یہ عکس دیکھتے ہیں۔میں نے شاز ملک کی شاعری سے شاز ملک کو جیسا سمجھا اور جانا ہے وہ انتہائی ایمانداری سے اس مضمون کے سہارے یہاں عکس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں میں کہاں تک کامیاب ہوا یہ آپ شاز ملک کی شاعری پر مبنی اس کتاب کو پڑھ کر آپ بتا سکتے ہیں فی الحال اشعار ملاحظہ فرمائیں
جہاں مشکل پڑی اِس زندگی میں تب
مری اِمداد کو تو ہی تو آیا ہے
محمد مصطفی کے نام پر سانسوں کا لینا
قیامت تک مرے اِیمان کا حصہ رہے گا
بھنور نے راستہ کشتی کو دل کی دے دیا کہہ کر
مسافر نے ترے دل سے لیا ہے نام آقا کا
شاز ملک کی شاعری نے جس فضا میں آنکھ کھولی وہاں نسائی ادب میں پروین شاکر کی خوشبو پوری توانائی سے رچی بسی تھی، اِس صورت حال میں پروین شاکر کے اسلوب اور لہجے سے بچ کر اپنے ہونے کا اعلان اپنے قاری سے کرانا یقینا بہت بڑی کامیابی ہے جو شاز ملک نے اپنی محنت اور لگن سے حاصل کی،شاز ملک کے ہاں خیال کی لطافت دکھائی دیتی ہے، شاز ملک نے رموزِ تصوف اور فلسفے کی گتھیوں میں خود کو اْلجھانے کے بجائے نئی نئی راہیں پیدا کی ہیں جو صرف شاز ملک کا خاصہ ہیں ہجر و وصال رشک و حسد محبوب کی غمزہ و ادا، اْس کی نفسیات کی عکاسی اور وارداتِ محبت کی عکاسی ہی شاعری میں کی ہے، اِن کی شاعری میں اکیسوی صدی کی عورت بھی دکھائی دیتی ہے جو اپنا حق لینا جانتی ہے مگر اِس صورتحال میں اپنی مشرقی روایت کو تار نہیں کیا بلکہ روایت میں رہتے ہوئے اپنے ہونے کا اعلان کیا ہے یہ چند اشعار دیکھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ شاز ملک کی شاعری شاز ملک کی شخصیت کا کون سا پہلو اپنے قاری پر آشکار کر رہی ہے۔شاز ملک کے اشعار شاز ملک کی شخصیت کو خود عکس کر رہے ہیں میں نے یہی محسوس کیا ہے
وہ میری روح کا محرم فقط ہو ساتھ بس میرے
یہ ہی میری ضرورت ہے مجھے تسلیم ہے بھائی
اِک تعلق کو نبھانے کی غرض سے عمر بھر
بے دھیانی میں رہے ہم بے دھیانی میں رہے
کچھ چبھن اْوڑھے ہوئے اور کچھ لگن اْوڑھے ہوئے
جی رہی ہوں زندگی کو میں تھکن اْوڑھے ہوئے
میں کیسے بھلا تجھ کو دے دوں خلاصی
مرے عشق کی تو نے توہین کی ہے
تعلق بوجھ کی صورت مجھے ڈھونا پڑا اے دل
تو پھر رستے بدلنے کے سوا میں اور کیا کرتی
تیرا مجھ سے ملنا اور راستہ بدل جانا
یہ مری کہانی کا انتساب ہے کیا ہے
شاعری کوئی جامد شے نہیں جس کو ہم کسی خاص دائرے میں محدود کر سکیں شاعری کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ ایک جذبہ ہے جس کی جڑیں جمالیاتی ذوق کے اندر سے نکلتی ہیں اِسی کے ساتھ وہ فکری عمل سے بھی بے نیاز نہیں، شاعر کی دنیا وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں تمام دنیا کی حدیں تمام ہوتی ہیں شاعر محسوسات کی دنیا سے وہ نتائج اخذ کرتا ہے جہاں سائنس کی رسائی ممکن نہیں مگر جذبہ ہو یا فکر خلوص کے بغیر سچی شاعری کو جنم نہیں دے سکتا۔ حالی نے شاعری کے لیے جو شرط لگائی وہ خلوص ہے اگر شاعری میں خلوص نہیں تو اِس میں تاثر پیدا نہیں ہو سکتا شاعری میں تجربے کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ ضروری ہے، شاز ملک پر خلوص بھی ہیں اور شاعری سے محبت بھی کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ شاز ملک کے ساتھ یہ شاعری بھی اچھا برتاؤ کر رہی ہے۔ جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے اس نے ہمیشہ اپنے اندر وسعت رکھی ہے مواد کے اعتبار سے بھی اور ہیت کے لحاظ سے بھی کل تک ہماری شاعری کیا تھی اور آج اِس شاعری کی تصویر کیا ہے زبان و بیان کے کرشمے جو اردو شاعری نے دکھائے وہ اتنی سرعت کے ساتھ ہماری زندگی میں جگہ پاگئے کہ دوسری زبانیں دیکھتی رہ گئیں فنون لطیفہ میں شاعری کا مقام بہت بلند ہے اور شاعری کی سب سے اہم صنف غزل ہے غزل کی کچھ روایات ہیں جو مدت دراز سے چلی آرہی ہیں شاز ملک نے اِن روایات سے بغاوت نہیں کی بلکہ اِن روایات میں رہتے ہوئے انہیں مزید سنوارنے کی بھرپور کوشش کی ہے شاز ملک کی مادری زبان پنجابی ہے مگر اِن کی اردو شاعری کسی بھی صورت ایسی نہیں جسے نظر انداز کیا جا سکے شاز ملک نے اِن فرسودہ روایات کے خلاف آ واز بھی بلند کی ہے شاز ملک نے مردہ پرستی کے کوچے سے غزل کو نکال کر ایک فطری ماحول میں داخل کرنے کی سعی کی ہے۔شاز ملک کے ہاں عروضی معاملات عین عروضی نظام کے مطابق ہیں جبکہ کہیں کہیں اِن کے ہاں اضافتی نظام سے بغاوت دکھائی دیتی ہے مگر یہ بغاوت میرے نزدیک بجا ہے کیونکہ اسے ثابت کرنے کے لیے ایک ٹھوس دلیل موجود ہے جو کہہ رہی ہے لفظ جس زبان سے ہجرت کرکے داخل اردو ہوا تو وہ باضابطہ اردوایا گیا اب وہ لفظ اردو زبان کا ہی کہلائے گا، اِس لیے اضافت کا عیب وہ نہیں مانتی تو یہ آنے والے وقتوں میں تسلیم کیا جا سکتا ہے شاز ملک نے بحر کے آخری رکن میں زحاف کے استعمال سے گریز نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ فاعلاتن کا آخری سبب خفیف زحاف کی زد میں آگر فاعلن بنا یا مفاعیلن کا آخری سبب خفیف زحاف کی نذر ہو کر فعولن رہ گیا مگر شاز ملک نے کہیں بھی شعر کے مفہوم کو کمزور نہیں ہونے دیا۔
شاز ملک بلاشبہ ایک برجستہ شاعرہ ہیں، شاز ملک کے اشعار میں کی گئی خامیاں مختلف قسم کے حالات و واقعات پر مبنی ہیں بہرحال شاز ملک شاعری کے خارجی پہلوؤں کی طرف متوجہ ہو چکی ہیں اکثر جگہ ان کا کلام پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل فہم ہو گیا ہے اور اشعار کی شرح کرتے وقت ایک طالب علم کے لیے ایسا ہوگا جیسے وہ کوئی معمہ حل کر رہا ہے شاز ملک کی زبان سہل ہے اور بعض جگہ ناہموار بھی دکھائی دیتی ہے مگر مصرع کی تقطیع کرنے سے مصرع بحر میں دکھائی دے گا یہ پہلو اِس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ شاز ملک بحر کو بھی سامنے رکھ کر شعر کہتی ہیں جو میرے نزدیک اِن کی شاعری کا کمزور پہلو ہے کیونکہ بحر اور قوافی سامنے رکھ کر شعر تو ہو جاتا ہے مگر وہ اپنی خوشبو برقرار نہیں رکھتا وہ ایک کاغذی پھول کی مافق ہوتا ہے۔ شاز ملک نے اپنی شاعری کو فلسفہ اور تصوف سے جوڑے رکھا ہے جو اِنہیں اپنے ہم عصروں میں نمایاں مقام دلارہا ہے۔شاز ملک کی شاعری کا میدا ن وسیع ہے خیالات کی فراوانی مضامین آفرینی اور الفاظ کی بنت شاز ملک کو عہد حاضر کی قابل قدر شاعرہ ہونے کا اعزاز دلوا رہی ہیں۔اِس شعر پر میں اپنا یہ مضمون طے کرتا ہوں شاز ملک نے کیا خوب کہا ہے
راز کھولیں گے زباں ملتے ہی یہ یاد رہے
یہ قدم اور سبھی بند قباؤں والے
میری دعا ہے کہ شاز ملک کا تخیل سدا آباد رہے اور ان کا قلم قرطاس پر یہ سجدے کرتا رہے شاز ملک اردو شاعری کا ایک کامیاب حوالہ ہیں اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
نسیم شیخ کراچی