شبنمی جان کو جب شعلۂ لب کھینچتا ہے
کون ایسے میں یہ دیوار ِ ادب کھینچتا ہے
حجرۂ مہر و وفا میں یہ مرا دل درویش
عشق کے وِرد کا دَم ہجر کی شب کھینچتا ہے
لمس در لمس کئی روپ ابھر آتے ہیں
قیس، لیلیٰ کی وہ تصویر غضب کھینچتا ہے
رنگ در رنگ چمکتے ہیں تمنا کے خطوط
آنکھ سے حاشیے دھڑکن پہ عجب کھینچتا ہے
وہ جو اک عمر تری آنکھ کے منظر میں رہا
وہی چِلہ بھی ترے ہجر کا اب کھینچتا ہے
لے کے اُڑ جاتی ہے جو دشت نوردوں کو ہَوا
صحرا آوارہ مزاجی کے سبب کھینچتا ہے
بھیک میں وصل ولایت نہیں ملتی راجا
حسن کو اپنی طرف عشق کا ڈھب کھینچتا ہے
احمدرضاراجا