شوخ آنچل جو اڑ کر ہوا ہو گیا
کتنا رنگین رنگِ فضا ہو گیا
رنگِ رخسار ِ عالم نکھرنے لگا
کون گلشن میں جلوہ نما ہو گیا
دل جو مدت سے تھا مبتلائے بلا
اک نظر سے ہی اچھا بھلا ہو گیا
گرمی ٔ دید سے وہ بھی گھائل ہوئے
سوچ رکھاتھا کیا اور کیا ہوگیا
مجھ کو اچھا لگا اپنا دیوانہ پن
ان کی محفل میں جب تذکرہ ہو گیا
حسن سے ان کی دنیا حسین ہو گئی
چاند بھی اب میرے چاند سا ہو گیا
دیکھتے دیکھتے میرا خون جگر
ان کے ہاتھوں پہ رنگ حنا ہو گیا
جب بہار آئی تو سوئے صحرا چلا
اے دل نا سمجھ تجھ کو کیا ہوگیا
جن کی آنکھوں سے زاہد شرابی ہوئے
اب سنا ہے کہ وہ پارسا ہو گیا
جب بتایا کسی نے میری موت کا
ہنس کے بولے وہ اچھا ، تو کیا ہوگیا
ہے بقا آدمی کی جو انساں رہے
وہ فنا ہو گیا جو خدا ہو گیا
ہے طبیعت جو سرشار الطاف کی
آج ان سے کہیں سامنا ہو گیا
سید الطاف بخاری