غزل
شکایتیں نہ زمیں سے نہ آسمان سے ہیں
کہ ایک عمر سے ہم لوگ بے زبان سے ہیں
نہ ہو جو شہر کی مانند بود و باش نہیں
یہی بہت ہے کہ صحرا میں ہم امان سے ہیں
مری طرح ہدف عہد بے یقینی ہیں
خود اپنے آپ سے جو لوگ بد گمان سے ہیں
عجیب ہیں ترے کوچے میں بسنے والے بھی
زمیں پہ رہتے ہیں وابستہ آسمان سے ہیں
وصال و ہجر کی یہ تہمتیں سہیں کب تک
ہم اہل عشق کہ بیزار اپنی جان سے ہیں
یہ معجزہ بھی عجب ہے ترے تعلق کا
جو لوگ دشمن جاں تھے وہ مہربان سے ہیں
سلوک اہل جہاں دل پہ نقش ہے خاورؔ
جہاں تھے زخم وہاں آج بھی نشان سے ہیں
رحمان خاور