Shahr e dil say akhtar o Mahtaab hijrat kar gayee
غزل
شہرِ دل سے اختر و مہتاب ہجرت کر گئے
آنکھ ویراں ہوگئی سب خواب ہجرت کر گئے
وقتِ رخصت ہم نے تیرا شہر چھوڑا اس لیے
تجھ سے ملنے کے سبھی اسباب ہجرت کر گئے
ہم غریبِ شہر تھے کچھ اور تو نہ کر سکے
پی لیا ہجرت کا یہ زہرآب ہجرت کر گئے
دوست اور احباب پہلے تو ہوئے کمیاب پھر
رفتہ رفتہ ہو گئے نایاب ہجرت کر گئے
شامِ ہجراں تھم گئی آ کر مری دہلیز پر
وصل کے پل صورتِ سیماب ہجرت کر گئے
دل کی یہ بنجر زمیں سوکھی ہے صدیوں سے تقی
وہ جو آئے تھے کبھی سیلاب ہجرت کر گئے
تقی حیدر تقی
Syed Taqi Haider Taqi