Sehra Ka koi phool Moatar to Nahi Tha
غزل
صحرا کا کوئی پھول معطر تو نہیں تھا
تھا ایک چھلاوا کوئی منظر تو نہیں تھا
پھر کیوں تری تصویر ڈھلی روح میں میری
افسوں تری آنکھوں کا مصور تو نہیں تھا
بن کر مرا اپنا وہ بنا حسرت جاوید
تھا خاک کا پتلا ہی مقدر تو نہیں تھا
میں بھی تری خلوت کا کوئی ناز چراتا
ایسا کوئی قسمت کا سکندر تو نہیں تھا
افسانہ تری زلف کا اے جان تمنا
میں کیسے سناتا مجھے ازبر تو نہیں تھا
تلخابۂ دل تھا کہ حوادث کا شرر تھا
فریاد نہ کرتا کوئی پتھر تو نہیں تھا
خود آگ میں اپنی ہی میں جلتا رہا اکثر
برگشتہ میں تجھ سے مرے داور تو نہیں تھا
ہم نے بھی عظیمؔ آج غزل تیری سنی ہے
اسلوب بیاں تیرا موئثر تو نہیں تھا
عظیم قریشی
Azeem Qureshi