غزل
صدائے شوق سکوت لبی سے شرمندہ
دروں کا شور مری خامشی سے شرمندہ
کہو تو آج ذرا سا سنوار لوں خود کو
کہ آئنے ہیں مری سادگی سے شرمندہ
عجیب دوہری عزت کا سامنا ہے انہیں
کوئی کسی سے تو کوئی کسی سے شرمندہ
ہمارے ہاتھ جو دستک نہ دے سکے در پر
ہمارے ہاتھ رہے اس کجی سے شرمندہ
ہم اپنی خاک جہاں میں اڑائے پھرتے ہیں
اے شہر یار تمہاری گلی سے شرمندہ
ہم اس صدی میں بھی منزل سے آشنا نہ ہوئے
یہ اور بات ہے پچھلی صدی سے شرمندہ
ہے میرے پاس یہ لکنت زدہ زباں شاہدؔ
اے خوش کلام تری نغمگی سے شرمندہ
افتخار شاہد ابو سعد