طاقچے کو دیا بنا لیں گے
زخم کو خوش نما بنا لیں گے
آنکھ بٌنتے ہیں تیرے دریا سے
دشت کو نقشِ پا بنا لیں گے
کچھ نہ سوجھا تو رو پڑیں گے ہم
خامشی کو صدا بنا لیں گے
اس کی محفل میں آج دعوت ہے
ہم بھی تھوڑی جگہ بنا لیں گے
عشق سے رابطہ کریں گے ہم
درد کو آشنا بنا لیں گے
خواب کے ٹوٹنے پہ خوش ہو لیں
پھر کوئی آئنہ بنا لیں گے
دشمنی بھی نبھا کے دیکھتے ہیں
بعد میں فاختہ بنا لیں گے
ارشاد نیازی