غزل
عجب مرحلوں سے گزارا گیا میں
پھر اس خاک داں پر اتارا گیا میں
ضرورت نہیں تھا میں دن بھر کسی کی
جہاں شام آئی پکارا گیا میں
خبر ہی نہیں تھی سفر ہے کہاں تک
جہاں تک گیا وہ ستارہ گیا میں
محبت نہیں میں تماشا تھا جیسے
گلی سے تری یوں گزارا گیا میں
میں درویش تھا اور نہ عاشق مگر دل
ترے سنگ بے موت مارا گیا میں
مجھے تو طلب تھی محبت کی خاورؔ
مگر تہمتوں سے سنوارا گیا میں
اقبال خاور