Ishq Ik inqilab e peeham Hay
غزل
عشق اک انقلاب پیہم ہے
ہاں مگر مجھ میں لو ذرا کم ہے
چھو رہا ہے فلک کے دامن کو
اس تخیل میں کتنا دم خم ہے
مٹ گئے رنج و غم مرے تب سے
جب سے برسی کرم کی شبنم ہے
سجدہ کرتے ج بیں نہیں تھکتی
سر خرو خواہشوں کا پرچم ہے
خالی باتوں میں ہی مٹھاس نہیں
ان کے لہجے میں بھی بہت دم ہے
آکے بیٹھے وہ سامنے میرے
یہ عنایت بھی کیا کوئی کم ہے
کیوں نہ انجم بیاں کرے مدحت
ساری دنیا سے وہ مقدم ہے
شہناز انجم
Shahnaz Anjum