غزل
علاوہ جلوۂ معنی کے کل جہاں دیکھا
جو چیز دیکھنے کی تھی اسے کہاں دیکھا
چھپائے رکھا ہمیشہ نگاہ گلچیں سے
نہ دیکھنے کی طرح سوئے آشیاں دیکھا
یہ یاد ہے کہ ملاقات تو ہوئی تھی کہیں
مگر یہ یاد نہیں ہے تمہیں کہاں دیکھا
قفس میں نیند بھی کیسے فریب دیتی ہے
کھلی جو آنکھ تو گلشن نہ آشیاں دیکھا
زمیں کے ظلم بھی برداشت ہم نے ہنس کے کئے
ترا بھی دبدبہ اے جور آسماں دیکھا
ہزاروں زخم تھے انسانیت کی میت پر
تمام دامن فطرت کو خونچکاں دیکھا
جو لوگ حفظ زباں کی زبان دیتے تھے
تو قیصرؔ ان کو ہی غارت گر زباں دیکھا
قیصر حیدری دہلوی