تحریر شاہ روم خان ولی

شاعری کے افق ہمارے کائناتی آفاق کی طرح گو وسیع و بسیط نہیں تاہم حیات و کائنات کی پردہ کشائی اور اس کے ایک چھوٹے سے کرّے میں آباد انسان اور اس کی دنیا کے تہہ در تہہ راز ہائے سر بستہ کو منکشف کرنے کا فریضہ اور اس کے ظاہر و باطن کو وسیع تناظر میں پیش کرنے کا جو کھم اپنے نمود سے اٹھائے ہوئے ہے۔کائناتی آفاق کی طرح یہاں بھی اہلِ نظر طلوع اور زوال کے منطر نامے کا مشاہد ہ دل کی آنکھ سے کرسکتے ہیں۔ اس افق پر بھی سیکڑوں ستارے نمودار ہوتے رہتے ہیں۔کچھ کہکشاں کی شکل میں جبینِ ادب کے ماتھے کا جھومر بن جاتے ہیں تو کچھ اپنی طویل تر مہارت ِ نور کے باوصف مثلِ آفتاب ایک دنیا کی تشکیل کرتے ہیں۔ایک نئی تخلیقی کائنات ،اور اس طرح دیگر سیّارگانِ ادب اس آفتاب کی گردش میں منہمک ہوجاتے ہیں تادیر کوئی اور اس کی تابانیوں اور کشش کے ماسوا نمودار نہیں ہوا جاتا۔کئی صدیوں پر محیط ہماری زبان اور شاعری کا یہ وصف ہمیں ایسی کئی برگزیدہ تخلیقی شخصیات سے متعارف کراتا ہے جنھوں نے ہمیں وسعتوں کے نئے نئے جہان سے روشناس کیا، جنھوں نے ہمیں وسعتِ نظر بھی عطا کی اور وسعتِ قلب بھی۔ہر صدی ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔یہی سبب ہے کہ ادب کے شائقین ادب کے آسمان پر نگائیں گاڑے رنگ و نور کے نئے قافلے کے منتظر رہتے ہیں۔ فیروز ناطق خسروؔ صاحب بھی آسمانِ شاعری کا ایک ایسا درخشاں ستارہ ہیں جس کے حصے میں دن کا سفر زیادہ آیا ہے لیکن اس نے اکثر روشنی کے جھماکے کیے ہیں اور تیز اجالوں میں بھی اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا ہے نیز اپنی کرنوں سے ظلمتِ عالم میں شگاف بھی ڈالتا رہاہے۔یہی نہیں بلکہ اس کی روشنی نے ہمارے زمینی منظر ناموں میں رنگ و نکہت کے خوش رنگ حوالے قائم کیے ہیں ۔فیروز خسروؔ نے لفظوں سے ساحری بھی کی ہے اور شاعری کے آنگن میں حسن بیان کے خوش رنگ پھول بھی کھلائے ہیں ۔ یہ سیارہ بے آب و گیاہ نہیں بلکہ مشکل ترین لمحات میں بھی ذہن و دل کی سیرابی کے وافر مواقع اور جد و جہد کی بے مثال نشیانیاں اپنے جلو میں سمیٹے ہوئے ہے۔
خسروؔ صاحب کی دلآویز و دل آسا شخصیت کا ہر وہ شخص معترف ہے جو ان کو قریب سے جانتا ہے۔ بے ریائی اور اخلاص ان کی شخصیت کا ایسا جوہر ہے جو کسی ملاقاتی کو پہلی ملاقات میں اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے ۔ اپنے ہوں یا بے گانے ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ حفظِ مراتب کے معاملے میں بڑے حساس ہیں ، چاہے کچھ ہو تہذیب و شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔مہرومحبت اور اخلاص و بردباری نے گویا ان کے قالب میں پناہ لے رکھی ہے۔کوئی بھی اجنبی ، موصوف سے ملنے کے بعد یہ محسوس نہیں کرسکتا کہ وہ پہلی مرتبہ ان سے مل رہا ہے بلکہ ان کی اپنائیت سے بھری گفتگو اجنبی کو یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ کسی دیرینہ شناسا سے بات کررہا ہے۔
فیروز خسروؔ صاحب سے گفتگو کے دوران ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ وہ اسلامی فکر اور دینی مزاج کے حامل ہیں۔شریعت کی پابندی کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں اور طریقت و معرفت سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔اعلیٰ و مثبت روایات کے امین ہیں تو فرسودہ روایات سے دامن کشاں بھی ہیں۔اگر یہ بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ موصوف کی شخصیت قدامت و جدت کے مثبت عناصر کا مجموعہ ہے۔
آپ 19 نومبر 1944 کو ہندستان کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے پاکستان کے قیام کے بعد خاندان سمیت سندھ کے شہر خیر پور میرس میں آکر آباد ہوئے۔آپ نے ائر فورس میں بہترین خدمات انجام دی ہیں اور سول اداروں میں تدریسی و انتظامی عہدوں پر کام کیا ہے۔ نسبی اور خاندانی شجرے کے حوالے سے اسے ایسے چراغ کی حثییت حاصل ہے جسے علمی و تہذیبی اقدار کے لوگ اپنی روشنیوں میں پرورش کرتے رہے ہیں۔ شاعری آپ کو ورثے میں ملی ہے۔دادا غلام حسنین مہر، نانا حکیم راحت علی خاں حاذق امروہوی، تایا علامہ وامق بدایونی ، والد حضرت ناطق بدایونی اور والدہ مسلمہ خاتون نہاں تخلص کرتی تھیں ۔
اگر آپ فیروز خسروؔ صاحب کی شاعری کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کریں تو مجھے یقین ہے کہ آپ شاعر کو زاہدِ خشک نہیں پائیں گے ۔ روایت کی چاشنی۔نئے عہد کی روشنی، نیزے کی انی پہ ٹھہرا رومانی لہجہ نئی غزل کی تہذیب اور اس کی اساریت و رمزیت کا کلاسک سے کسبِ فیض کرتا پیرایہ قاری کو اپنی گرفت میں رکھنے کے تمام تر اوصاف سے مزین ہے یا پھر ایک نگینہ جو اپنی تآب و تاب کی بدولت اردو غزل کے تاج کی زینت بن گیا ہے جس کی چمک دمک میں مسلسل اضافے ہو رہا ہے ۔ امید ہے کہ خسروؔ صاحب کی فنی ذکاوت اور تخلیقی ریاضت اس مقام کو پہنچے گی جو خود ان کی منتظر ہے اور جہاں تراشیدہ اور نا تراشیدہ کی بحث لایعنی اور عیب اجتہاد بن جاتا ہے۔
حق گوئی کی پاداش میں منصور کی صورت
ہر دور میں وقفِ رسن و دار ہوا میں
۔۔
ہونٹ بھی خاموش تھے آنکھیں بھی چپ چپ تھیں مگر
میرا چہرہ بن گیا باعث مری تشہیر کا
۔۔۔
بہتر یہی ہے دل کے دریچے رکھو نہ بند
کردے گی کام ورنہ یہ دل کی گھٹن تمام
۔۔۔
بانٹ رکھا ہے خسروؔ ہم نے خود کو بھی
جتنے دل کے خانے اتنی ذاتوں میں
۔۔۔۔
کس نے سوچا تھا کہ منزل پر پہنچ جانے کے بعد
قافلے ہوں گے جدا اور ہم سفر کٹ جائیں گے
۔۔۔
آنکھ پتھر ہوئی خود اپنی ہی عریانی سے
آئینہ ٹوٹ گیا شدتِ حیرانی سے
۔۔۔۔
نہیں دیکھا کبھی بھی آنکھ بھر کر
مگر ہم نے اسے دیکھا بہت ہے
۔۔۔۔۔
میں کہ ہوں نقش نقش حیرانی
وہ کہ ہے پور پور آئینہ
۔۔۔۔
خود بھی حیراں ہیں انگلیاں خسروؔ
نقش چوری ہوئے ہیں پوروں سے
۔۔۔۔
دل کھول کے ملتے نہ تھے ویسے بھی کبھی وہ
’’کورونا‘‘ کے ہاتھوں گیا اب ہاتھ ملانا
۔۔۔۔
یہ راز کیا ہے بتا کچھ تو اے بتِ کافر
ابھی تلک ہے جو قائم طلسم مٹی کا
۔۔۔۔
ترے سخن میں بھی خاکِ شفا کی ہو تاثیر
اگر ہو تیرا وظیفہ بھی اسم مٹی کا
۔۔۔
فیروز خسروؔ صاحب نظمیں بھی کہتے ہیں۔ غزل کی طرح نظموں میں بھی شاعر کی انفرادیت اور لہجے کی موسیقیت قابلِ لحاظ ہے۔انھوں نے زیادہ تر ایسی بحریں استعمال کی ہیں جس کے ارکان خُماسی ہیں، یا اگر کوئی پابندنظم کہی ہے تو اس کے بھی مصرعے اکثر سہ رکنی ہی رکھے ہیں۔چھوٹی نظم اوراس پر چھوٹے ارکان یا چھوٹے مصرعے، یہ سارا التزام محض اتفاق نہیں ہوسکتا ۔اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ فیروز خسروؔ صاحب مختصر کہنے کا فن جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ مختصر نظم کب مختصر نظم کی جگہ مختصر نویسی بن سکتی ہے۔ان کے ہاں مصرعے ٹھیک اتنی ہی تعداد میں ہوتے ہیں جتنی ضرورت ہوتی ہے فضول مصرعے ، غیر ضروری لفظ، یہ سب ان کے ہاں نہیں ملتا۔بہت سی باتیں ، بہت سے الفاظ، بہت سے پیکر ایسے ہیں جو نظم میں کھپ جاتے ہیں لیکن غزل انھیں قبول نہیں کرتی۔ نظم کی یہ سہولت کمزور شاعر کے لیے عدم توازن کے دروازے کھولتی ہے اور مضبوط شاعر کے لیے احتیاط کے اشارے اور خطرے کی گھنٹی کا حکم رکھتی ہے۔فیروز ناطق خسروؔ صاحب ان نکات سے اچھی طرح واقف ہیں۔
بن باس
اس بستی کی ریت نرالی
اس بستی کے ہر اک در پر
کنڈلی مارے
سانپوں کی پہرے داری ہے
اس بستی کے باسی
بستی چھوڑ کے ویرانے میں
جا بیٹھے ہیں!!!
۔۔۔۔
چوتھی سمت
اپنے گلے میں
اپنے نام کی تختی ڈالے
جو بھی چوتھی سمت چلا ہے
میرے جیسے بونوں سے
وہ شخص بڑا ہے
۔۔۔۔
فیروز خسروؔ صاحب غزل و نظم کے ساتھ ساتھ نثر نگاری بھی خوب کرتے ہیں۔انھوں نے ابتدا میں کہانیاں لکھیں ۔پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں میں فی زمانہ ایسے لوگ کم ہی نظر آتے ہیں جو صلہ و ستائش کی تمنا کیے بغیر خاموشی سے تخلیقی عمل میں مصروف ہوں اور یوں سچے قلم کار کی ذمہ داریاں پوری کرنے پر مطمئن ہوں ۔فیروز ناطق خسروؔ صاحب کا شمار بلاشبہ ان معدودے چند لکھنے والوں میں کیا سکتا ہے جو کسی ادبی دھڑے بندی میں شامل ہیں اور نہ صفت و ثنا کے لیے کسی حلقے کا محتاج۔ان کی ساری توانیاں تخلیقی عمل پر مرکوز ہیں۔انھوں نے اردوکے کئی اصناف میں لکھا ہے ان کی تحریریں معیاری بھی ہیں اور اہمیت کی حامل بھی ۔
فیروز خسرو صاحب کی اب تک (گیارہ ۱۱) کتابیں شائع ہوکر پزیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ہیں۔جن میں (غزلوں کے دو۲) (نظموںکی چار ۴ )(حمد، نعت،منقبت، سلام کی ایک01)(قطعات ایک 01) )مضامین ایک01)(افسانےایک01)(انتخاب کلامِ ناطق بدایونی مرحوم ایک01.) مزید 5 کتابیں زیرِ طبع ہیں۔پاکستان کی دو جامعات سے آپ کی شاعری پر ایم فل کے مقالے تحریر کیے جاچکے ہیں۔میری دعا ہے کہ اللہ ان کے فن کو مزید دوام بخشے اور صحت و سلامتی کی لمبی زندگی عطا فرمائے ۔۔ آمین۔۔۔۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شاعر۔۔۔ فیروز ناطق خسرو
تحریر۔۔ شاہ روم خان ولیؔ