غالب و شیفتہ و آزردہ و ذوق
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز
مومن و علوی و صہبائی و ممنون کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز
داغ و مجروح کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیرو زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانا ہرگز
الطاف حسین حالی