غزل
غبار دشت جنوں یوں ہی نیک بخت نہ تھا
وہاں بھی چھاوں تھی اس کی جہاں درخت نہ تھا
ہر ایک ہاتھ میں پتھر بلند ہو نے تک
خبر یہی تھی کہ بحران اتنا سخت نہ تھا
ہمیں بھی راہ دکھا تا کوئ ستارہء شام
سفر کی شام ہمارا ہی ایسا بخت نہ تھا
تمام عمر گزاری اس اعتماد کے ساتھ
کبھی ہما را جگر جیسے لخت لخت نہ تھا
غبار راہ تو ہو کا رواں کے ساتھ نہ ہو
سوائے میرے کسی اور کا یہ بخت نہ تھا
بڑے شعور سے کی ان سے گفتگو ہم نے
زبان موم نہ تھی اور کلام سخت نہ تھا
وطن کے عشق میں ہجرت قبول کی ورنہ
ذمین پیروں کے نیچے نہ تھی کہ تخت نہ تھا
جہاں اتر کے ستارا کوئ ٹہر جاتا
وہ بد نصیب تھا میں جس کا ایسا بخت نہ تھا
عباس حیدر زیدی