loader image

MOJ E SUKHAN

غزل Ghazal کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت

غزل Ghazal کے روپ میں تہذیب گا رہی ہے ندیم؛مرا کمال مرے فن کے اس رچاؤ میں تھا

اردو غزل کی بدلتی ہئیت اور اس وقت کی تہذیبی معنویت کو فراق گورکھپوری نے نہ صرف سمجھا بلکہ انہوں نے ہندوستانی تہذیب کو غزل Ghazal کا حصہ بنا یا ثبوت میں خود انہوں نے۲۰ اکتوبر ۱۹۴ء کو ایک ا نٹرویو میں ڈاکٹر شمیم حنفی سے کہا اپنی غزل گوئی سے متعلق  کہا:

’’ ۲۰ ہزار کے قریب اشعار اپنی غزل Ghazal میں کہے ہیں۔ ان کے نزدیک گھر خیر و برکت کا مرکز ہے گھر صرف جسم کا نہیں بلکہ روح کا گہوارہ ہے۔ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔ ان سے گھر کا مقام کہیں بلند ہے تو میری غزلوں میں جو روح گردش کر رہی ہے ان سے جو فضاپیدا ہو ئی ہے جو راحت اور طمانیت گھر کے تصور میں ہے۔ ان تمام محرکات کو میں نے اپنی غزلوں میں جاری و ساری کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کام آسان نہیں تھا۔ مجھے اپنی غزلوں کو مغائرت یا غیرتیں،بیرونیت اور خارجیت سے بھی بچا نا تھا اور بیمار قسم کی داخلیت سے بھی۔مجھے اپنی غزلوں میں ایک سہانے پن پیدا کرنا تھا جو نور کے تڑکے میں ہوتا ہے۔ سکوت نیم شبی میں ہوتا ہے، فطرت کے پس منظر اور پیش منظر ، گھر اور گھریلو زندگی میں ہوتا ہے اور جنسی زندگی کے ایسے شعور میں ہوتاہے جو ہندوستانی ثقافت کے پیدا کردہ مرد و زن کے باہمی تعلقات میں زندہ جاوید کر دیا گیا ہے۔‘‘

 فراق کی غزلوں کی معنویت کا اندازہ  ان کی  اردو غزل سے لگا یا جاسکتا ہے کہ انہوں نے غزل کو اپنی روایت سے وابستہ کرنے کی کوشش میں مخلوط اور مشترکہ ثقافتی اقدار سے ہمیں اسرِ نو روشناس کریا ہے۔ خاص طور سے ہندوستانی اساطیر کا وہ فلسفیانہ پہلو جس سے اردو غزل Ghazal اس وقت تک تہی پہلو تھی۔ ہندو دھرم میں عشق کا جو کرشنائی روپ ہے اس کا وہ تکلم، اس کا وہ لب و لہجہ فراق کی وساطت سے اردو غزل میں تخلیقی سطح پر اسرِ نو دریافت ہوا ہے:

یہ کہاں سے بزم خیال میں امڈ آئیں چہروں کی ندیاں؛کوئی ہ چکاں، کوئی خونفشاں، کوئی زہرہ وش ، کوئی شعلہ رو

کرش تا سقراط کوئی کس کس کا نام گنائے؛کیا کیا قیدی دیکھے اے دنیا تیرے زندنوں نے

حسن و محبت آپ اپنی توہین ہیں اگر معصوم نہ ہوں؛تھوڑی دیر کو بھولے بن لیں، ہم بھی سیانے تم بھی سیانے

ان اشعار کی روشنی میں پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فراق کی شاعری بنیادی طور پر معنویت ، احساس اور نغمگی کی تثلیت سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور اس سے انحراف اور اضافہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ نئے نئے استعارات، نئی تشبیہات اور نئی نئی پیکر تراشیوں سے مزین اور مملو ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی غزلوں میں غنائیت اور نغمگی کا احساس کوبہ کوبہ ملتا ہے۔  وقت
کے ساتھ ساتھ غزل کی ہئیت میں متعدد تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھی اسی صورت میں اصغر نے  غور و خوص کیا  ۔ وہ سمجھتے ہیں غزل مطرود، مردود اور معون  ہو رہی تھی اسے نیم وحشی صنف سخن اور گردن زندنی قراردیا جا رہا تھا تو ایسے حالات پر  اصغر کا خیال ہے۔’’غزل Ghazal شاعری کی اعلیٰ ترین صنف ہے۔ لیکن اس وقت جب کہ شاعر کی فطرت اس کی حقیقی صلاحیت رکھتی ہو۔ ورنہ غزل سے زیادہ لفظی گرہ بازیوں اور سطحی ہرزہ سرائیوں کا موقع کس اور صنف شاعری میں نہیں۔‘‘ ۷۴ اس کے علاوہ ان کا عقیدہ یہ تھا’’ فن کی ترقی تقسیم عمل سے ہے۔ شمس الرحمٰن فارقی نے کلاسیکی اردو غزل کے وجود کے بنیادی تصورات یہ ضبط کیے ہیں۔

علمیاتی تصورات وجود یاتی تصورات

مضمون آفرینیبامعنی لفظ (یا مضمون)

معنی آفرینیوزن و بحر

خیال بندی وزن و بحر

کیفیت

شو انگیزیربط

اگر شعر ان تصورات پر قائم نہ کیا جائےتو شعر وجود میں آنا مشکل ہے۔جب تک مختلف شعبوں میں اختصاصین کی جماعتیں نہ ہوں‘ اس وقت تک فن کی تکمیل نہیں ہو سکتی‘‘ متذکرہ معلومات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصغر غزل کو شاعری کی آبرو سمجھا  اور اس کی نزاکت احساس، لطافت جذبات، رنگینی تخیل کو حسین ترین مرقع تسلیم کیا ہے ۔ اسی لیے ان کی غزل Ghazal گوئی میں بنیادی خوصوصیات، اشارات و کنایات معنویت و لطافت، علوو شائستگی ، متانت وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔

اصغر کی نظر میں شاعر کا نام موضوع حسن اور غزل Ghazal کا عشق ہے۔’ شاعری کا عام موضوع حسن۔ ارباب فقر و تصوف کے نزدیک اس کامفہوم نہایت وسیع ہے۔ جس میں مجاز و حقیقت ، اخلاقی اور مادی حسن کی تمام ادائیں داخل ہیں
انک ا مزید خیال ہے ’ غزل Ghazal کا عام موضوع عشق و محبت اور شوق و طلب کی داستان ہے۔
روح انسانی ایک جوہر لطیف ہے۔ خدا کے ساتھ انقیاد و محبت اس کا خاصہ ازلی ہے اس جد عنصری میں پہنچ کر اپنی دیرینہ عظمت کی تلاش ایک تقاضائے فطری ہے۔

  1. غزل کی بدلتی ہئیت:

ہیئت کےآکسفورڈ انگلش ۔انگلش ۔اردو میں معنی کسی شے یا طریقہٗ کار کی خاص شکل صورت ، وضع، ترتیب اعضاوا اجرا‘ اور مخصوص شکل اختیار کرنا یا بنانا، مخصوص ڈھانچہ بنانا‘ہدائیت شدہ ہئیت ہونا، جیسا بتایا گیاہے۔
 اس کے علاوہ دیگر لغات میں  معانی کچھ اس طرح ہے۔شکل۔ صورت ۔ وضع۔ تراش۔ ڈھنگ ۔ انتظام۔ نظم و نسق۔بندوبست ۔ دستور۔ ضابطہ۔ ریتی۔ بدھی۔ مرجاد۔ قاعدہ۔ کورا نقشہ ۔ظاہر داری۔ دنیا دکھاوا۔ رسم ۔خوبصورتی۔ نمایش۔ پاکیزگی۔ حسن۔ سندر تائی۔ روپ۔ دھج۔ سجاوٹ ۔شکل۔ خیالی صورت ۔ سانچا۔ قالب۔ نمونہ ۔ لمبی تپائی بغیر تکیے کے۔ ایک لمبا تختہ۔ درجہ۔ رتبہ۔ مرتبہ ۔خرگوش کی خواب گاہ ۔کتاب کی صورت میں چھپا ہوا جز۔ فرما ۔بنانا۔ گھڑنا۔ ساخت کرنا۔ پیدا کرنا ۔ ڈھالنا۔ صورت بنانا۔ شکل یا ڈول بنانا۔ ڈول ڈالنا۔ صورت دینا۔ سدھارنا۔ سنوارنا۔ مرتب کرنا۔ سجانا۔ سریانا۔ آراستہ کرنا ۔ سکھانا۔ تعلیم دینا۔ تربیت دینا۔ سدھانا۔ درست کرنا ۔حالت، صورت اور ساخت کے ہیں۔ بالخصوص فرہنگِ آصفیہ اور نور اللغات میں لفظ ہیئت معانی اس طرح ہیں۔صورت، شکل، چہرہ مہرہ،ڈول، ساخت، بناوٹ، دھج حال، حالت، کیفیت، ڈھنگ، طور، طریق کے ہیں۔

انگریزی ادبیات میں ہیئت کے لیے Form کا لفظ مستعمل ہے، یہاں یہ کہنا بے موقع نہیں ہے کہ انگریزی میں Form کا لفظ جہاں ہیئت کے لیے برتا جاتا ہے وہاں صنف کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، مغربی تنقید نگاروں کے ہاں یہ لفظ بالعموم اسی دوہری معنویت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ مروجہ اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے صنف اور ہیئت ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں، صنف کا تعلق کسی فن پارے کے مواد اور موضوع سے ہے جب کہ ہیئت کسی تخلیق کے ظاہری ڈھانچے اور صورت کا نام ہے۔ اس کے بر عکس غزل Ghazal کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں اس کا ظاہری ڈھانچہ جلوہ گر ہونے لگتا ہے اور اس کے ہیئتی خد و خال (جیسے مطلع، مقطع، ردیف، قافیہ وغیرہ) ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اس اعتبار سے غزل کو ہیئت کہنا زیادہ مناسب ہے۔
اس ضمن میں شمیم احمد نے غزل Ghazal کو “ہیئتی صنف” قرار دیا ہے:

’شعری ہیئتوں کی شناخت کوئی بڑا مسئلہ نہیں، اس لیے کہ ان کی شناخت بہت حد تک ظاہری صورت سے متعلق ہوتی ہے۔ لیکن صنفِ سخن کی شناخت میں تھوڑی بہت پیچیدگی ضرور ہے کیوں کہ بعض اصناف کی شناخت ہیئتی اصولوں پر منحصر ہوتی ہے بعض موضوع سے پہچانی جاتی ہیں، بعض دونوں پر اپنی شناخت کا دارومدار رکھتی ہیں۔ بعض موضوع و ہیئت دونوں میں سے کسی پر اپنی شناخت کا انحصار نہیں کرتیں۔ بعض ایسی اصناف ہیں جو محض کسی وزن (اوزان) ہی کی وجہ سے اپنی صنفی شناخت قائم کرتی ہیں۔‘‘

اس سے قبل کہ ہیئت کی اصطلاحی معنویت کا تعین کرتے ہوئے اس کے خد و خال کا جائزہ لیا جائے، مناسب ہو گا کہ Formکے لغوی معانی پر ایک نظر ڈالی جائے۔
ہیئت ایک ایسی کثیر المعنی اور ہشت پہلو ادبی اصطلاح ہے۔ جس کے معنی و مفہوم کی واضح اور حتمی حدود مقرر نہیں کی جا سکتیں۔ ہیئت اپنے محدود اصطلاحی مفہوم کے مطابق ایک ایسا پیمانہ یا سانچا ہے جسے فن کار اپنے جذبات اور خیالات کی تشکیل کے لیے استعمال کرتا ہے۔لیکن وسیع تر مفہوم میں ہیئت، تکنیک اور اسلوب کو بھی محیط ہے۔ دانشوروں کے یہاں ہیئت کے تعین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور شاید اسی لیے محمد حسن عسکری نے ہیئت کو” فریبِ نظر” اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نے ہیئت کے مفہوم کو کثرتِ تعبیر کے باعث خوابِ پریشاں قرار دیا ہے۔ ذیل میں ہیئت کی چند ایسی تعریفیں پیش کی جاتی ہیں جو اس کے محدود اور وسیع اصطلاحی مفاہیم کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اس ضمن میں حفیظ صدیقی نے کہا ہے:

ایک تبصرہ چھوڑیں