غم سے بہل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں
۔
سایۂ وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں
۔
اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں
۔
وقت نے آرزو کی لو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں
۔
دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں
۔
اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجئے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں
پیرزادہ قاصم