فانی نے پہلے شعر میں محبت میں ناکامی کی وجہ سے‘دل کی ساری آرزوئیں اور تمنائیں ختم ہوگئیں۔ گویاہم کوچہ دل ہی سےدور ہوگئے۔ اب نہ کوئی آرزو ہے اور نہ امید، دل ہمیشہ کے لئے ہمت ہار بیٹھا ہے۔ دوسرے شعر میں محبت کے دیوانے زندان یا قیدخانہ میں بند کردئے گئے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ زنداں کا دروازہ کھولا جاراہا ہے۔ وہ باتیں ممکن ہیں‘ شاہد باہر کی دنیا میں موسم بہار آ پہنچا‘ اور کوئی عاشق دیوانگی کا شکار ہوگیا۔جسے پکڑ کر زنداں میں داخل کر نے کے لئے داروازہ کھولا جارہا ہے۔ یا شاید یہ بات ہے کہ زِنداں کے قیدیوں میں کِس کی موت آپہنچی‘ ادب زنداں سے اُس کی لاش باہر نکالی جارہی ہے۔
تیسرے شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جوش محبت نے ہمیں دیوانہ بنادیا۔ اور عرصہ ہوا کہ ہمارے ہاتھ سے دل کا دامن‘ یا صبر و قرار کا دامن‘ چھوٹ چُکا ہے۔ اب اگر عالمِ دیوانگی میں ہمارے ہاتھ اپنے دامن کو تار تار کر رہے ہیں‘ تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ دامن کی احتیاط ممکن ہے‘ اور نہ ہاتھ کو روک سکتے ہیں۔ چوتھے شعر میں وہ کہتے ہیں محبت میں منزل ِ مقصود حاصل تو ہوئی ‘لیکن اتنی دیر سے‘ کہ اب ساری تمنائیں اور آرزوئیں مردہ ہو چکی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تمنائیں اورآرزوئیں جو ہمارے ساتھ ہم سفر تھیں‘ اس راستہ میں سب نے ہمارا ساتھ چھوڑدیا‘ اور ہم تنِ تنہا عشق کی منزل پر پہنچے ہیں۔اس طرح آخری شعر میں شاعر نے اپنی آپ بینی بیان کی ہے۔ ترک ِوطن کے پردیس آئے تھے ‘ لیکن پردیس کی فضا راس نہ آئی‘ نہ وطن کے رہے ‘ اور نہ پردیس میں آسودگی میسّر ہو سکی۔ میری مثال ایک ایسی زندہ لاش کی سی ہے‘ جسے قبر نے قبول کرنے سے انکار کردیا‘ اور کفن بھی اسے میسّر نہ آسکا۔
یگانہ چنگیزی : کی ایک غزل
جب تک خلشِ درد خدا داد ہے گی؛
دنیا دلِ ناشاد کی‘ آباد رہے گی؛
دل اور دھڑکتا ہے ادب گاہِ نفس میں ؛
شاید زباں تشنہٴ فریاد رہے گی
جو کاک کا پُتلا‘ وہی صحرا کا بگولا!
مِرنے پہ بھی اک ہستیٴ برباد رہے گی؛
شیطان کا شیطان ٗ فرشتہ کا فرشتہ؛
انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی
ہر شام ہوئی صبح کوٗاک خرابِ فراموش؛
دنیا یہی دنیا ہےٗتو کیا یاد رہے گی
شہرہ ہے یگانہؔ تیر بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یا درہے گی
یگانہ چنگیزی نے اس غزل پہلے شعر میں بیان کیا ہے کہ میرے دل کی دنیا اگر چہ مسرت یا خوشی سے معمور نہیں ہے۔ پھر بھی آباد ہے۔ کیوں کہ خودا نے درد کی جو کسک میرے دل کو عطا کی ہے۔ وہ ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ دل میں درد کا ہونا ہی اس کے آباد ہونے کی دلیل ہے۔ جو دل درد سے خالی ہوتا ہے وہ ویران ہوتا ہے۔ اور دوسرے شعر میں کہا ہے قفس کی بندیشوں اور پابندیوں کی وجہ سے ، دل کی دھڑکن اور بڑھ گئی ہے۔انسان اپنے دکھ دردکا اظہار کر دےتو کچھ نہ کچھ تسکین ہوجاتی ہے،لیکن جہاں فریاد کرنےکابھی موقع نا ہوتو دم گھٹنے لگتا ہے۔ شاید قفس میں میں زبان بھی فریاد کرنے کےلیے بیچان رہے گی۔ تیسرے شعر میں شاعر کہتا ہے انسان کو خاک کا پتلا کہا جاتا ہے۔ یہ خاک کا پتلا جب خاک میں مل جاتا ہے تو پھر یہ خاک بگولا بن کر سحرا میں منتشر اور پریشن ہو جاتی ہے۔ چوتھے شعر میں بھی انسان کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے انسان ایک عجیب مخلوق ہے۔اس میں خیر و شر سے دونوں کی قوتیں ایسی جمع ہوگئیں ہیں کہ تمام مخلوقات میں اس کا جواب نہیں مل سکتا۔ ہو جب بدی پر اتر آتا ہے تو شیطان کا بھی شیطان بن جاتا ہے۔ شیطان بھی ا س کی بدی کی قوت کے آگے خوش نہیں رہے جاتا اسی طرح جب وہ نیکی طرف مائل ہوتا ہے تو فریشتہ سے بڑھ جاتا ہے۔ اور یوں فریشتے کا فرشتہ بن جاتاہے۔انسان کا ہستی عجیب وغریب ہے اور اسی متضاد صلاحیتوں اور قوتوں کا مجموعہ ہے کہ اس کی نظر نہیں ملتی ۔ پانچویں شعر میں زندگی میں کیسے کیسے واقعات پیش آتے ہیں۔ لیکن انسان سب کچھ جلد بھول جاتاہے۔ رات جس عالم میں بسر ہوئی تھی‘ صبح کہ وہ ایک خواب ‘ بلکہ بھولا ہوا خواب معلوم ہوتاہے۔ ماضی کے نقوش بہت جلد ذہن سے فراموش ہوجاتے ہیں۔ جب عالم یہ ہوتو زندگی کے بعد‘ زندگی کی یادیں کیا باقی رہیں گی۔
خری شعر میں حقیقت یہ ہے کہ یاگانہ نے اس شعر میں اپنے طرز زندگی کی ترجمانی کردی ہے۔ وہ ہر جگہ بیگانہ رہے کبھی گُھل مِل کر رہنا انہوں نے پَسند نہیں کیا۔ لکھنو میں رہے تو وہا ں کے تمام شعرا سے ان کی چشمک رہی۔ ان کو اپنی اِس بیگانہ روی کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ حیدرآباد میں بھی وہ مہاراجہ کشن پرشاد کے دربار میں رہ نہ سکے۔ پرنس معظم جاہ بہادر کے دربار میں بھی وہ رہ نہ سکے۔ فانیؔ اور دوسرے شعراء سے جو حیدرآباد میں مقیم تھے ان کی نبھ نہ سکی اسی طرح سے وہ زندگی بھر سب سے الگ تھلک رہے ۔ غرض ان کی یہ بیگانہ روی انہیں اپے دور کا ایک یادگار شاعر بناتی ہے۔ اور اسی بات کو انہوں نے اپنے شعر میں پوری صداقت کے ساتھ پیش کردیاہے۔
فراق گورکھپوری:
فراق عہد حاضر کے مشہور غزل گو شاعر ہیں۔ ثبوت میں ان کی بہت ہی مقبول غزل پیش خد مت ہے۔
بڑاکرم ہے یہ مجھ پر‘ ابھی یہاں سے نہ جاو؛
بہت اُداس ہے یہ گھر ‘ ابھی یہاں سے نہ جاو
دھواں دھواں سی یہ شام اِلم ‘ فضاوں کے؛
بجھے بجھے سے ہیں تیور‘ ابھی یہاں سے جاو
ہماری آنکھوں سے چُن لوکہ پھر کسی داسوں؛
نہ مل سکیں گے یہ گوہر‘ ابھی یہاں سے نہ جاو
تہمارے پاس یہ اندازہ ہو رہا ہےمجھے؛
کہ میراحال ہے بہتر ‘ ابھی یہاں سے جاو
ابھی تو سوے چراغوں نے آنکھ کھولی ہے؛
ابھی تو جاگتے ہیں گھر‘ ابھی یہاں سے جاو
ابھی درختوں کے جھُر مٹ پہ پڑنے والی ہے
کمندِ ماہِ منّور‘ ابھی یہاں سے نہ جاو
فراق کی غزل گوئی اپنے آپنے ایک سمندر ہے۔ جو ہندوستانی ثقافت کو اپنی غزل کا مرکزی خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے کے ذریعہ اصلاحی معاشرہ کا کام لیا ہے۔ بالخصوص اس غزل کے پہلے شعر میں لکھتے ہیں مجھ پر بڑا کرم اور نوازش ہے کہ تم میرے گھر آئے ہو۔ اب میری یہی درخواست ہے کہ اور کچھ دیر کے لیے یہاں ٹہر جاو۔ محبوب کی آمد کیوجہ سے شاعر کا گھر بارہ نق ہو گیا ہے اور وہ چلاجائے تو پھر شاعر تنہا رہ جائےگا اور اس کا گھرویرانی کا منظر پیش کرےگا۔ دوسرے شعر کا مطلب ہے شام کا وقت ہے‘ سارا ماحول اداس ہے‘ اور نیم تاریکی میں لپٹا ہوا ہے۔ فضا پر گہری اداسی چھائی ہے‘ محبوب کو اپنے پاس پاکر اس سے اپنے ساتھ کچھ وقت گزارنے کی درخواست کرتا ہے۔ تیسرے شعر میں محبوب کے رخصت ہوتے وقت شاعر کی آنکھوں میں آنسو جو دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے ہیں‘ بے بہا موتی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آنسووں کا یہ قیمتی تحفہ قبول کرو‘ اور ابھی یہاں سے نہ جاو۔
چوتھے شعر کا مطلب ہے شاعر محبوب کی جدائی میں بے حال اور بے تاب رہا کرتا ہے۔ لیکن اب جب کہ محبوب اس کے قریب ہے‘ وہ محسوس کرتا ہے کہ اگر محبوب چلا جائے تو یہ سکون ‘ پھر اضطراب میں تبدیل ہو جائے اس لیے وہ کہتا ہے کہ کچھ دیر اور ٹہرے ہو۔ غزل کے پانچویں شعر کا مطلب ہے ابتدائی رات ہے ۔ محبوب سے ملاقات میسر ہوئی۔ اب وہ رخصت ہونا چاہتا ہے شاعر کہتا ہ کہ چراغ جو دن بھر خوامیدہ تھے‘ تجھے ہوئے تھے‘ ابھی کچھ دیر پہلے روشن ہوئے ہیں۔ ابھی تو ساری رات پڑی ہے ابھی سے واپس لوٹنے کا ارادہ نہ کرو۔ غزل کے آخری شعر میں شاعر فرماتا ہے طلوعِ ماہتاب کا منظر پیش کیا ہے۔ چاند کی روشن کرنیں ، ابھی کچھ دیر میں درختون کو چھونے لگیں گی۔ گویا چاند درختون کی چوٹیون پر اپنی کمند چھنکنے کی تیاری کررہا ہے۔ ابھی کچھ دیر اور ٹہر ے رہے۔
ناصر کاؔظمی:
ناصر کاظمی جدید غزل گو شاعر کی حیثیت سے اردو غزل کی بدلتی ہئیت کے ساتھ ساتھ اپنے کلام کی معنویت بدلتے رہے۔ حالاں کہ وہ نجی زندگی میں بے روزگاری، مفلسی اور مصائب میں گزاری۔ پھر تقسیم ہند کے سلسلے میں انہوں نے بڑے ہولناک اور انسانیت سوز واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اسی لیے ان کی غزلوں میں درد و الم کو اپنی غزلوں کا حصہ بنایا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک نئی روایت کا آغاز تھا۔ کیوں کہ قدیم شعرا نے سوائے خواتین کی باتیں کرنے کے غزل میں اور کچھ نہ کیا تھا۔ اسی لیے ناصر کی غزلوں میں سادگی کے علاوہ گہری معنویت ملتی ہے۔ انہوں نے عا اور مانوس لفظیات میں غزل گوئی کی ہے۔ ثبوت میں ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:
شہر در شہر جَلاے گئے !!؛
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
اک طرف جھوم کر بہا ر آئی؛
اک طرف آشیاں جلائے گئے
اک طرف خونِ دل بھی تھا نا یاب؛
ایک طرجشنِ جم مناتے گئے
کیا کہوں کس طرح سرِ بازار؛
عصمتوں کے دیئے بجھاتے گئے
آہ وہ خلوتوں کے سرمائے؛
مجمع عام میں لُٹا تے گئے
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصرؔ؛
خسارہ خس کی طرھ بہاتے گئے
اصغر گونڈوی اردو غزل میں نئی لطافتیں پیدا کیں اور اس میں فکر و تامیل کے لیے نئی سمت نکالی ان کے اسالیب نے بھی اردو غزل میں نئے باب کھولے ۔ وہ ہم کو انگریزی کے مشہور شاعر درڈ سورتھ ی یاد لاتے ہیں۔ ان کےکلام میں وہی مدرائی (ٹرانسچعندعن) کی کیفیت شروع سے آخر تک چھائی ہوئی ملتی ہے جس سے ورد سورتھ کی شاعری ممتاز ہے۔ جگر مراد آبادی اور یاس یگانہ چنگیزی نے اردو غزل کے جدید معمار ہیں۔ بالخصوص اصغر تصوف کے راستے اور فانی نے موت اور یاسیت کے راستے سے کائنات کی بدلتی فکر اور اس کی معنویت کی تلاش کی۔
ولیؔ اور نگ آبادی:
کوچہٴ یار‘ عین کا سی ہے؛
جو گئی دِل‘ وہاں کا باسی ہے
پی کے بیراگ کی اُداسی سوں؛
دل بھی بیراگی دادُاسی ہے
زلف تیری ہے موج‘ جمنا کی ؛
پاس تِل اس کے‘ جیوں سناسی ہے
یہ سیہ زلف‘ تجھ زنخد اں پر؛
ناگنی جیوں کنویں یہ پیاسی ہے
اے ولیؔ‘ جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے
یہ غزل ولی ؔ کے قدیم رنگ ِ سخن کی عکاسی کرتی ہے۔ حالاں کہ وہ دکنی بول چال میں شعر کہتے تھے۔ قدیم دکنی غزل کے مطابق اس غزل میں ہندوستانی تہذیب کی جھلکیاں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ شاعر نے محبوب کے تصور پیش کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے میر امحبوب کا کوچہ میرے لیے ایسا ہی عزیز اور قابل احترام ہے‘ جیسے کاشی ۔ پھر جیسے بنارس میں دریائے گنگا کے کنارے کو بہ کو جوگی مراقبے میں مست مگن ہوکر جس طرح بیٹھے دکھائی دیتے ہوں۔ویسے ہی میرا دل بھی ایک جوگی جیسا کو چہ یار کا یاس بنا ہے۔
شاعر دوسرے شعر میں محبوب کے غم پوری دنیا کے مسروفیت ترک کر دیے ہیں۔ اور تمام زندگی کی خوشیوں کو قربان کر دیا ہے۔اپنی محبوبہ کے غم میں بیراگ لیا ہے‘ اسی بنا پر میرا دل بھی بیراگی اور اداسی سی چھائی ہوئی ہے۔ تیسرے شعر میں بھی محبوب کی پیشانی کو ہردوار سے تشبیہ دی ہے، جو ہردوار کے کنارے عبادت کی حالت میں بیٹھا ہے۔ چوتھے شعر میں شاعر کہے رہا ہے تیری بل کھائی زُلفین‘ جمنا کی موج کی طرح ہے۔ چہرے کا تل یو گی یا سنیاسی ‘ جمنا کے دھونی رمائے بیٹھا نظر آ رہا ہے۔ پانچویں شعر میں زنخداں کو شاعر چاہِ رنج بھی کہتے ہیں۔ بل کھا ئی ہوئی زلفوں کو محبوب کی تھوڑی کے قریب لہرارہی ہیں‘ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پیاسی ناگن پیاس بُجھا نے کے واسطے کنویں پر آئی ہے۔ چھٹویں شعر کا مطلب ہے گفتگو اگر بے جان ہو تو بے مزہ لگتی ہے۔اگر انسان کی گفتگو میں جان نہ ہو تو بہتر ہے کہ وہ خاموش رہے۔ بحث و مباحث میں اگر لطف نہ ہو تو وہ مثل باسی غذا کی رہے جاتی ہے۔ غزل کے آخری شعر میں شاعر کہے رہا ہے عاشق کا کمال یہی ہے کہ وہ ہوش و حواص سے بیگانہ ہو جائے۔ اور اپنا جامہ تار تار کردے۔ایسا عاشق جو اپنے لباس میں ملبوس ہو، حقیقی عاشقوں کے نزدیک پر فریب اور چھوٹا ہے۔
میر تقی میرؔ:
دور متوسط کی غزل میں میر سر فہرست ہیں۔ میر کی غزلوں کے چھ دیوان ہیں۔الاوہ ازیں مثنویاں، قطعات، رباعیات، قصائد اور واسوخت بھی تحریر کیے ہیں۔ لیکن وہ غزل کے میدان میں سب سے افضل ہیں۔ان کے بعد تمام شعراء ان کی عظمت کو قبول کیا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک درد مند اور حسّاس شخص تھے۔ مصائب حیات نے انہیں نازک اور پُر درد بنا دیا تھا۔ ان کی شاعری میں دردمندی، محرومی، ناکامی، زندگی سے مایوسی اور غم و الم کے احساسات کو بہ کو ملتے ہیں۔ اسی کا ایک نمونہ ان کی یہ غزل ہے:
چلتے ہو تو چمن کو چلیے‘ سنتے ہیں کہ بہاراں ہے؛
پات ہرے ہیں‘ پھول کھِلے ہیں‘ کم کم با دوبار اں ہے
رنگ ‘ ہو ا سے یوں ٹپکے ہے‘ جیسے شراب چواتے ہیں؛
آگے ہو میخانے کے نکلو‘ عہد بادہ گُساراں ہے
عشق کے میداں داروں میں بھی‘ مرنے کا ہے وصف بہت؛
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا‘ کارِ کار گزاراں ہے
دل ہے داغ‘ جگر ہے ٹکڑے ‘آنسو سارے خون ہوئے؛
لو ہو پانی ایک کرے‘ یہ عشقِ لالہ عذاراں ہے
کوہ کَن و محبتوں کی خاطر‘ دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میرؔ نہایت‘ پاسِ عزّت داراں ہے
شاعر پہلے شعر میں محبوب کو دعوت دیتا ہے کہ وہ چمن کو ساتھ چلے۔ سُنا ہے کہ بہار آئی ہے۔ سبز پتے اپنا نکھار دکھا رہے ہیں۔ پھول مسکرارہے ہیں۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی ہے۔ اس شعر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں محاکات نگاری ہے۔ اس سے مراد کسی چیز کی ہُو بہو تصویر کشی کرنا ہے۔ بہار کے موسم میں چمن کی جو کیفیت ہوتی ہے۔ شاعر یہاں موسم بہار کی ایسی منظر کشی کی ہے جس طرح مصور کرتا ہے۔ دوسرے شعر میں بھی موسم بہار کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ ہوا میں ایسی رنگینی اور سرمستی ہے کہ انسان پر نشا طاری ہو جاتا ہے۔ وہ اس فضا سے ایسا سرشار ہو تا ہے جیسے شراب پلادی ہو۔
غزل کے تیسرے شعر میں جولوگ عشق کے مردِ میدان ہوتے ہیں وہ کسی بھی مصیبت نہ ڈرتے ہو اور اپنی جان کی بازی تک لگا دیتے ہیں۔ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں یہ مستعد بے باک اور بہادر ہی کر سکتے ہیں یہ تصور پیش کیا ہے۔ چوتھے شعر میں عشق کو سخت ترین آزماشوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ محبوبہ کی محبت میں خونی آنسوں بہانے پڑتے ہیں یہاں تک کے جگر چور چور ہو جاتاہے۔اس طرح کی مشکلات کے بعد ہی عشق میں کمال حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح محبت اور جذبات کی عکاسی کی ہے۔ آخری شعر میں کو ہ کَن سے مراد فرہادؔ کو لیا ہے۔ جس نے اپنی محبوبہ شیریں کی خاطر دودھ کی نہر جوے شیر لانے کے لیے بے ستون کا پہاڑ کاٹا تھا۔ اور عرب کا مشہور عاشق مجنو جس نام قیس تھا اس نے لیلیٰ کے عشق میں گرفتار تھا۔ میر نے اپنے عشق کو بڑائی بالکل اچھوتے انداز میں کی ہے۔ شاعر کہتا ہم بھی عشق میں فرہاد ار قیس سے کم نہیں۔ بلکہ ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن ہم اپنے عشق کی بڑائی کے لیے دوسروں کی کو خاک میں نہیں ملانا چاہتے۔ ہمیں ان کی عزت کا لحاظ ہے۔ اسی لیے صحراؤں کی خاک چھاننے یا فرہاد کی طرح پہاڑ کا رخ نہیں کیا۔ورنہ ہم بھی دشت وکوہ رُخ کرتے تو لو گ کوہ کَن اور مجبوں کے نام سے ہمیں بھی بھول جاتے تھے۔
مرزا غالبؔ:
مرزا اسد اللہ خاں غالب کا پورا نام ہے۔ مالی منفعت کی توقع پر انہوں نے بعض اُمرا‘ اور انگریز عہدہ داروں کی شان میں قصیدے بھی لکھے ہیں۔ لیکن وہ عزّتِ نفس کا پورا خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے صرف انہیں کی مدح کی ہے‘ جن کا رتبہ اس زمانے میں بہت بلند تھا۔ ان کی گفتگو میں بڑے کمال کی جاذبیت ہو تی تھی اور وہ بڑے ظریف طبع بھی تھے۔ وہ ہر مذہب کے لوگوں کو چاہتے تھے۔ وہ شوخی مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے رندی اور سرمستی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ثبوت میں ان کے خطوط ہیں جس میں انہوں نے اپنی خوبیاں اور خامیاں دونوں پہلوؤں کی وضاحت کر دی ہے۔ وہ فارسی شاعر پر فخر کرتے تھے لیکن انہیں وہ مقام اردو سے ملا۔ وہ ابتدائی شاعری میں مشکل گوئی میں مشہور تھے۔ ان کے اشعار فارسی کے دقیق الفاظ، پیچیدہ ترکیبوں اور دُور از کاز تشبیہوں اور استعاروں سے پُر تھے۔
غالب ایک ذہین دقاق فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ دیوان فکر شخص تھے۔ ان کی شاعری میں عشق و محبت کے مشاہدات و احساسات اور حقائق ِ حیات سے گہری بصیرت ملتی ہے۔ان کی غزل گوئی میں جذبے کی حرارت سے جان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ جذبات کی گہرائی ‘مشاہدات کی تازگی اور انفرادیت ہر جگہ ملتی ہے۔ یہی ان کی غز ل گوئی میں بھی اثرات نمایاں طور پر ملتے ہیں۔ ان کی غزل کا اسلوب آگلے شعراء پر نظر آتا ہے۔میر کی طرح غالب کی غزل گوئی میں تہہ داری ہے ثبوت میں ان کی ایک غزل مع خلاصہ ملاحظہ ہوں:
نہ ہوی گر مرے مرنے سے تسلی‘ نہ سہی؛
امتحاں اور بھی ہو‘ تو یہ بھی نہ سہی
خارخارِ المِ حرستِ دیدار تو ہے؛
شوق‘ گلچینِ گلستانِ تسلی نہ سہی
لے پرستاں‘ خُم مے‘منہ سے لگاے ہی بنے؛
ایک دنِ گرنہ ہو البزم میں ساقی‘ نہ سہی
نفسِ قیس‘ کہ ہے چشم و چَراغ ِ صحرا؛
گر نہیں شمعِ سید خانہ لیلی‘ نہ سہی
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے‘ گھر کی رونق؛
نو جہٴ غم ہی سہی‘ نغمہٴ شادی نہ سہی
نہ ستائش کی تمنّا‘ نہ صلہ کی پروا
نہ ہوئی غالبؔ اگر عمرِ طبعی‘ نہ سہی
غزل کے پہلے شعر میں کہتا ہے کہ محبوب ستم پیشہ ہے۔ سچے عاشق کی قدر کرنے کے بجائے اس پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈھا تا ہے۔پھر اپنی سچی محبت دکھا نے کے لیے موت سے لڑ جاتا ہے۔ پھر بھی محبوبہ کو یقین نہیں آتا۔ اسی لیے عاشق کہتا ہے میں سب بڑ امتحانوں سے گزرگیا ہوں لیکن تمہیں اس پر بھی تسلی نہیں ۔ اگر اور کوئی امتحان ہو تو بتادینا میں اس سے بھی گزر جاؤنگا۔ دوسرے شعر میں کہتا ہے تم سے ملاقات کی تمنّا ہی زندگی کا میری حاصل ہے۔میری تمنا اور شوق پورانہ ہو سکا تو میرا شوق تسلی اور کامرانی کے گلستاں سے پھول توڑنے میں بھی کام سمجھو نگا۔ محبوب کے دیدار کی حسرت ایک پر لطف غم بن کر میرے دل میں ہے۔ یہی کافی ہے کیوں کہ محبوب کی حسرت اور تمنا جو لذت ہے وہ کسی سے کم نہیں۔ غزل کے تیسرے شعر میں شاعر کا خیال ہے مے پرستو، اے میرے دوستو‘آج محفل میں ہم سب موجود ہیں، اور خمِ مے بھی سامنے رکھا ہے۔ ساقی کا انتظار کب تک کہ وہ آئے اور جام شراب بھر کر دے‘ تب پئیں گے۔ ساقی اور جام موجود نہیں ہیں۔ نہ سہی آو آج ہم راست خُم سے منہ لگا کر پئیں گے۔
غزل کے چوتھے شعر میں شاعر کا خیال ہے قیس یا مجنوں ‘ لیلیٰ کے غم میں‘ صحراؤں میں دیوانوں کی طرح گھومتے رہے ۔یہاں تک لوگ مجنو کو دیکھنے آتے تھے۔ اس سے صحرا میں گویا ایک رونق ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ صحرا کا بیٹا ہے یااس کا چشم و چراغ ہے۔ دیوانگی کی حد تک گزرنےکے باجود قیس ‘لیلیٰ سے نہ مل سکا‘ اور نہ خآنہ لیلیٰ کی زینت ‘ یا اس کی روشنی نہ بن سکا۔ نہ سہی اچھا ہی ہوا۔ اگر وہ لیلیٰ کے سیہ خانہ کی زینت بنا رہتا ‘تو دنیا قیس کے ہنگامہ پر ورُجنون سے محروم رہ جاتی کیوں کے چاہت کی دیوانگی کی مثال دینے کے لیے کسی اور کی دینا پڑتا۔ پھر دشت و صحرا ئیں بھی ویران بن جاتے۔ پانچویں شعر میں شاعر کہتا ہے زندگی کی رونق اور چہل کسی نہ کسی ہنگامے پر موقوف ہوتی ہے۔ یہ ہنگامہ خوشی کا نہ سہی ۔ غم کا ہنگامہ بھی زندگی کی چہل پہل کو باقی رکھتا ہے۔ اگر زندگی میں کسی قسم کا ہنگامہ نہ ہو تو ساقی اور سپاٹ اور بے جان بن جاتی ہے۔
چھٹویں شعر میں غالب کا خیال ہے وہ نُد رت پسندی اور جدت پیدا کرنے کی خاطر فارسی کے کلاسیکی شعرا ءکی شاعری سے ‘ دُور از کار تشبیہی اشتعارے‘ ار دقیق الفاظ ‘چُن چُن کر اشعار میں سجائے تھے۔ پھر بھی معاصرین مذاق اڑاتے تھے۔اسی لیے اس کے جوابات’ دیوان غالب‘ جگہ جگہ ہیں۔ پھر کہتے ہیں اگرمیرے اشعار بے معنی معلوم ہوتے ہیں‘ تو ہواکریں ، میں اپنی شاعری کی تعریف اور ستائش کی تمنا نہیں کر تا۔ نہ ہی اچھے شعر کی صلہ کی پروا ہے۔ اس طرح آخری شعر میں جو لوگ عشق و عاشقی میں زندگی گذارتے ہیں۔اور مختلف قسم کی بے اعتدالیوں کو روا رکھتے ہیں۔ ان کی عمر فطری طور پر کم ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ مئے نوشی اور اسی قسم کے بے اصولیوں سے صحت متا ثر ہو تی ہے ۔ لیکن یہاں شاعر زندگی سے زیاہ دل کے سکون کو اس طرح دیتا ہے اگرمے اوعر معشوق میسر ہو ں تو ایسے پر لطف لمحات کے سوا اور کیا چاہیے۔ خواہ زندگی کا عرصہ کچھ کم ہی کیوں نہ ہو جائے ۔ ایسی لمبی عمر کس کام کی جوخشک اور بے رنگ ہو۔ شاعر نے بے مزہ زندگی پر طنز کیا ہے ۔
مومن کی غزل گوئی:
مومن کی شاعری میں عشق و عاشقی اور محبت کے علاوہ حکیمانہ اور اخلاقی مسائل بھی ہیں۔ لیکن غزلوں میں صرف عشق و محبت کا ذکر زیادہ ہے۔ دوسرے شعراء کے برعکس عشق حقیقی یا خدا سے محبت کی باتیں نہیں کرتے۔ان کا محبوب گوشت پوشت کا انسان ہے۔ مادّی یا جسمانی محبت سے متعلق مشاہدات و کیفیات کو وہ پر لطف انداز میں پیش کیے ہیں۔ اسی لیے مومن کے زمانہ کو اردو غزل گوئی کا سنہرےدور سے موسوم کیا جا تا ہےان کے ہم عصروں میں غالب شیفتہ، ظفر اور ذوق جیسے اہم شعرا ء تھے۔ وہ ایسے ماحول میں پیدا ہوئے کہ میر ، سودا ، درد اور سوز جیسے استاذشعراء موجود تھے۔ اسی فضا میں ان کی غزل گوئی پروان چڑھی۔ ثبوت میں ان کی یہ غزل ہے۔
دیدہٴ حیرا نے تماشا کیا؛
دیر تک وہ مجے دیکھا کیا
آنکھ نہ لگنے سے‘ سب احباب نے ؛
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا
ان سے پری دَش کو‘نہ دیکھے کوئی؛
مجھ کو ‘ مری شرم نے رسواکیا
جور کا شکوہ نہ کروں ‘ظلم ہے؛
راز مرا ‘ صبر نے افشا کیا
رحمِ فلک ‘ اور مرے حال پر ؟؛
تونے کرم‘ اے ستم آرا کیا
دشمنِ مومنؔ ہی رہے ‘بُت سدا
مجھ سے‘ مرے نام نے یہ کیا کیا
مومن نے غزل پہلے شعر میں کہا ہے ۔ محبوبہ کے غیر معمول حُسن و جمال کو دیکھ کر ‘مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ جب میں اس حال میں اسے دیکھا تو میری اس بے خودی کو ‘ محبوب تعجب سے دیکھتا رہا۔ اس طرح میری ان حیران آنکھیں ایک تماشائی ماحول پیدا کر دیے۔دوسرے شعر میں ۔ میں نے اپنے عشق کو چُھپا نے کی کوشش کی‘ لیکن رات بھر نیند اُچاٹ رہنے لگی تو دوستوں کو یقین ہوا کہ میں نیند میں ہوں اور میں کسی کی نگاہوں کا شکار ہو گیا ہوں۔
تیسرے شعر میں۔ محبوب محفل میں موجود ہونے کے باوجود میں نے شرم سے اسے نہیں دیکھا۔ یہ خیال ہو ا کہ اسے دیکھوں تو دوسروں کو میرے دل کی حالت معلوم ہو جائے گی ۔ لیکن محبوب کا پری چہرہ حسین کو نہ دیکھنا بجائے خو دآپنے آپ عجیب و غریب عمل تھا۔ میرا نہ دیکھنا ہی غضب ہو گیا۔ اور دوسروں کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ میرے دل میں چور ہے ۔ میری شرم ہی میری رسوائی کا باعث بن گئی۔ چوتھے شعر میں۔ میں نے محبوب کے ظلم وستم پر صبر سے کام لیا، اور کسی سے شکایت و شکواہ نہیں کیا۔ یہی دوسروں کے لیے تعجب سی بات تھی۔ میری خاموشی اور غیرت نے ہی میرے دل کا راز فاش کردیا۔ پانچویں شعر میں کہتا ہے ۔ مجھے موت آئی اور آخر کار اس نے مجھے غم و الم کی زندگی سے نجات عطا کی ۔ بظا ہر موت ایک مسیحا کا کام کیا۔ لیکن سچی تو یہ ہے کہ ہجر کی زندگی ‘محبوب سے دوری کی زندگی خود موت سے کم نہیں تھی۔ چھٹویں شعر میں شاعر کا خیال ہے کہ انسان پر ساری مصیبتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں۔ اس لیے فلک کی ظلم و زیادتی کی شکایت کرتے ہیں۔ لیکن مومن کہتے ہیں کہ فلک کا کام تو ظلم کرنا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ آسمان بھی میرے حال پر رحم کر رہا ہے۔ تعجب ہے! بات یہ ہے کہ تونے (محبوب نے ) میرے حال پر اتنا ستم روا رکھا ہے کہ آسمان کو بھی مجھ پر رحم آگیا۔ اس طرح تیراستم میرے حق میں کرم ثابت ہوا۔ غزل کے آخری شعر میں مومن میں اپنے تخلص کو لفظی معنوں میں استعمال کیا ہے جیسے بُت سے مراد محبوب ہے ۔ کہتے ہیں کہ بت ہمیشہ مومن کے دشمن بنے رہے۔ یہاں تک کے میرے نام ‘ یا میرے تخلص پر ان کے اثر بنے رہے۔
بہادر شاہ ظفر کی غزل گوئی:
بہادر شاہ ظفرؔ کو ابتدائے عمر سے شاعری سے لگاو تھا۔ پہلے شاہ نصیرؔ کو کلام دکھاتے تھے۔ پھر ذوقؔ اور آخر میں مرزا غاؔلب کو اپنا استاد مقرر کیےتھے۔ لیکن ان کا اپنا جداگانہ رنگ ہے۔ جس میں میر اوردرد کا انداز جھلکتا ہے۔ وہ بہت پر گو شاعرتھے۔ انہوں نے چار دیوان لکھے ہیں۔ غزلوں کے علاوہ انہوں نے نعتیہ قصائد ‘ مرثیے‘ سلام‘ شہرآشوب‘ قطعات‘ دو ہے ٹھمریاں‘ بھجن اور گیت بھی لکھے ہیں۔ وہ اردو ، فارسی ، برج اور پنجابی زبانیں جانتے تھے۔ ظفر کو عمر بھر شدید احساس تھا کہ وہ بابر ،اکبر اور عالمگیر جیسے عظیم بادشاہوں کے خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ لیکن حالاتِ زمانہ نے انہیں برائے نام بادشاہ بنا یا ہے۔ کیوں کہ غیر ملکی طاقتیں عملاًملک پر حکومت کررہی ہیں۔ ناکامی اور درد وغم کا یہ شدید احساس ان کے کلام میں ہر جگہ نظرآتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے بلبل ، قفس ، صیّاد‘ آشیانہ، جیسی غزلوں کی لفظیات میں اپنے تاثرات ِ حیات پیش کیے ہیں۔ ثبوت میں ایک غزل بطور نمونہ پیش خدمت ہے:
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا؛
یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے؛
کاش خاکِ در ِ جانا نہ بنایا ہوتا
نَشّہ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو؛
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
صوفیوں کے جونہ تھا لائق صحبت ‘تو مجھے؛
قابل جلسہٴ رِندانہ بنایا ہوتا!
تھا جَلا ناہی اگر‘ دُوری ساقی سے مجھے؛
تو چَراغِ درِ میخانہ‘ بنایا ہوتا
روز معمورہٴ دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا
شاعر پہلے شعر میں خدا سے اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ خدانے اپنی مہربانی سے بادشاہ توبنادیا ہے ۔لیکن دوسری طرف حالات ایسے تنگ کر دیے گیے ہیں کہ وہ مجبوری اور لاچاری کی زندگی گزارنا پڑا ۔ اسی لیے وہ شکوہ کرتے ہیں ۔اے خدا اگر تو نے مجھے صحیح بادشا بنایا ہوتا اور وہ قوت واختیار دیتا جو مجھے مطلوب ہے تو میں دنیا میں کوی اعلیٰ کام کرجاتا۔ یا پھر مجھے فقیر ی کا تاج عطا کردیا ہوتا تو میں فقیروں کی سی بے نیاز زندگی بسر کرتااور ہر چیز سے مستغنی ہوجاتا۔ دوسرے شعر میں فریاد کر تا ہے اگر میری قسمت میں خاکساری ہی لکھی تھی اور خاک میں ملنا ہی میرا مقدر تھا۔ تو اے خدا کاش تونے مجھے محبوب کے درکی خاک بنادیا ہوتا۔تو میں محبوب کے قدموں میں رونداجاتا تو میری حقیقی خوشی ہوتی۔
تیسرے شعر کی فریاد۔ اے خدا تونے مجھے عشق کے جام سے سرشار کیا ہے۔ یہ نَشّہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اور میں اس میں سر شار رہوں گا۔ لیکن اے خدا محبت طویل فرصت چاہتی ہےلیکن عمر کا پیمانہ مختصر ہے۔ چوتھے شعر میں کہتے ہیں۔ ایسے لوگ جو تصوف کو اپنا شعار بنالیتے ۔ صوفی کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کی وحدانیت کو اس قدر مانتے ہیں کہ وہ ہر چیز میں خدا ہی کے جلوؤں کو دیکھتے ہیں۔ ظفر کہتے ہیں کہ کاش خدا نے مجھے صوفیوں کی سی نظر عطا کی ہوتی۔ اگر میں سوفیوں کی صحبت کے لائق نہ تھا تو کم از کم مجھے رِندوں کی صحبت عطا کی ہوتی ( رِنداُس آدمی کو کہتے ہیں جو شرعی باتوں کی پابندی نہیں کرتا)۔جو دل میں آئے کر گرتا ہے۔ لیکن اس کے قول و فعل سے میں تضاد نہیں ہوتا۔ اس کی زندگی میں ریا کاری نہیں ہوتی ۔ مزید شاعر فریاد کر تا ہے۔اگر میں صوفی نہیں بن سکتا تھا تو کم از کم مجھ میں جراتِ رند انہ ہوتی۔ تاکہ میں اپنے دل کے کہے پرعمل کرتا۔ پانچویں شعر کی فریاد ۔ اگر قدرت کو یہی منظور تھا کہ میں ساقی کے ہجر میں جلتا رہوں ۔ اگرجلنا ہی میرا مقّدر تھا تو میخانے کا چراغ بن کر جلتا ۔ تاکہ ساقی اور شراب سے قریب ہوتا۔آخری شعر میں ۔ بظاہر یہ دنیا بھلےہی پُر ہے لیکن آئے دن نِت نئے تباہیاں یہاں ہوتے رہتے ہیں۔ ہنگامے و جنگ اور قتل وخون یہاں کا معمول ہے ۔بے دردی اور بر بریت تو وہ دیرانہ ہی اچھا جہاں سکون ہی سکون ہو۔ خدانے یہ دنیا کیوں بسائی۔ اسی سے تع دیرانہ ہی بہتر تھا۔
داغؔ دہلوی کی غزل گوئی:
داغؔ کا ابتدائی دور رام پور میں گذرا ۔ ان کی ماں بہادر شاہ ظفرؔ کے ایک شہزادے مرزا مخر سے وابستہ ہوئیں تو داغ بھی ۱۴ سال کی عمر میں دہلی آگیے۔ اس کے بعد دلیّ کے لال قلعے میں ان کی علمی و ادبی صلاحتیں پروان چڑحیں ۔ قلے میں اکثر شعر و سخن اور رقص و سرور کی محفلیں منعقد ہوا تی تھیں ان فضاؤں نےبھی داغؔ کی صلاحیتوں کو جلا بخشا۔ اور ستاد شعراء میں غالب، ذوق، مومن اور شیفتہ کی صحبتوں سے راست استفادہ کیا۔۱۸۵۷ء میں مرزا فخر و کا انتقال ہوا تو داغ رام پور واپس آگیے۔ لیکن چند دنوں کے بعد قدر دانی کی امید سے نوابوں اور اردو کے شہر حیدرآباد کا کوچ کیے۔ ۱۸۹۰ء میں حضور نظام نواب میر محبوب علی خاں کے دربار میں باریاب ہوئے ۔نظام دکن نے ان کی سرپرستی کی اور ماہانہ سترہ سو روپے تنخواہ مقرر کیے۔ اس زمانے میں اتنی موٹی اجرت کسی دوسرے شاعر کو نہ تھی۔
داغؔ کے غزلوں میں طرز بیان کی شوخی اور نمایاں خصوصیت ہیں۔ انہیں زبان اور محاورہ پر غیر معمولی عبور تھا۔انہیں خیالات اور جذبات میں گہرائی نہ ہونے کے باوجود ان کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ انہیں زبان کا شاعرمانا گیا۔ وہ زبان کے چٹخاروں سے معمولی مضمون کو بھی چمکا نے کا ہنر رکھتے تھے۔ اسی لیے ان کی زبان کو مستند مانا جاتا ہے۔ ان کے اشعار میں فارسی ترکیبیں، دقیق الفاظ دُور از کا ر تشبیہات اور استعارات بہت کم ملتے ہیں ۔ وہ سادہ بول چال کی زبان میں غزل کو سجا ئیں ہیں۔ ثبوت میں ان کی ایک غزل ملاحظہ ہوں:
ساز ‘ یہ کینہ ساز‘ کیا جانیں؛
ناز والے ‘ نیاز کیا جانیں
کب کسی در کی گجبّہ سائی کی
شیخ صاحب ‘ نماز‘ کیا جانیں
شمع رُوآپ گو ہوئے لیکن
طف سوزو گداز کیا جانیں
جو‘ رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
پو چھیئے ‘مے کشوں سے ‘ لطفِ شراب
یہ مزا پاک باز‘ کیا جانیں
جو گذرتے ہیں داغؔ پر صدمے
آپ بندہ نواز‘ کیا جانیں
داغؔ پہلے شعر میں کہا ہے۔ محبوب عاشق کو نہیں پہنچانتا ‘ اس لیے اس کے دل میں کدورت اور کینہ ہے۔ جو لوگ دل میں کینہ اور کدورت رکھتے ہیں وہ میل ملاپ اور دوستی کو نہیں کر سکتے ۔ اسی طرح جو لوگ صرف ناز کرنا جانتے ہیں۔ یعنی یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کا خیال رکھیں۔ ان کی ہر بات کو مانیں ایسے لوگ نیازعاجزی اور انکسار کے جذبات سے ناواقف ہو تے ہیں۔ دوسرے شعر میں لفظ شیخ کا استعمال ہوا ہے۔ جواردو غزل میں ہو تا ہے۔ یعنی ایسا شخص جو زاہدِ خشک ہو، جو ریا کاری سے کام لیتا ہو۔ ظاہری اعمال پر ضرورت سے زیادہ زور دیتا ہو۔ جو شرعی اصولوں کا تو پابند ہو لیکن ان کی روح اور اس کے مقصد سے نا واقف ہوتا ہے۔ داغ کہتے ہیں کہ شیخ صاحب نماز تو پرھتے ہیں۔ لیکن ان کی نمازیں بے جان ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی ۔کیوں کہ وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ پیشانی رگڑنے میں کیالطف پوشیدہ ہے۔ ایسا شخص خدا سے محبت کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہوتا۔
غزل کے تیسرے شعر میں شاعر کا خیال ہے یقیناً آب کا چہرہ شمع کی طرح روشن اور تاباں ہے۔ لیکن دل کے جلنے سے جو سوزو گداز پیدا ہو تا ہے۔ یا جس طرح شمع کسی غم میں جلتی ار پگھلتی جاتی ہے۔ اس کیفیت سے آپ واقف نہیں۔ چوتھے شعر میں جو لوگ عشق کے راستے کو اختیار کرتے ہیں وہ رکاوٹوں ،مُشکلوں اور راستے کے نشیب و فراز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ عشق کا راستہ ہمیشہ پُر خطرا ہوتا ہے۔ لیکن عشق کا جنون راستہ کے نشیب و فراز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ پانچویں شعر میں شراب کا مزہ تلخ ہوتاہے لیکن اس کے پینے کے بعد جو سُر ور پیدا ہوتا ہے ۔ اس کی لذت پینے والا ہی بیان کر سکتا ہے ۔ شیخ یا زاہد جس نے شراب پی ہی نہیں وہ اس کے لطف سے کیا واقف ہوگا۔
چھٹویں شعر میں زندگی کا لطف اسی وقت ہے جب انسان آنے والی موت کے امکان سے بھی واقف ہو۔ اگر موت نہ ہوت وطویل زندگی سپاٹ اور بے لطف بن جائے ۔ داغ کہتے ہیں کہ حضرت خضر کو بہت لمبی عمر ملی ہے۔ وہ قیامت تک جئیں گے لیکن ایسی زندگی میں کوئی مزہ نہیں۔ کیوں کہ اس میں موت کا کھٹکا نہیں۔ آخری شعر میں شاعر کا خیال ہے میرے دل پر جو کچھ گذرتی ہے اِسے میں ہی جانتا ہوں ۔ کیوں کہ عاشق کا دل ہی جانتا ہے کہ اسے کیسے صدمے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ بندہ نواز یعنی اے مہر بان آپ معلوم ہے کہ میرے دل پر کیا گذر تی ہے۔ بندہ نواز کا لفظ محبوب کے لیے طنزاً استعمال ہوا ہے۔