فلک کو فکر کوئی مہر و ماہ تک پہنچے
ہمیں یہ زعم کہ ہم واہ واہ تک پہنچے
انہیں نہ رکھ تو کرم کی نگاہ سے محروم
جو لٹ لٹا کے تری بارگاہ تک پہنچے
ہوا نہ ہم سے مداوائے درد نوع بشر
بہت چلے تو ثواب و گناہ تک پہنچے
نہ جانے کب سے ہوں سرگرم جستجو اے دوست
نہ جانے کب رخ منزل نگاہ تک پہنچے
وفور شوق میں یہ احتیاط ہو نہ سکی
کہ آرزو نہ ہماری نگاہ تک پہنچے
ہماری زیست کی روداد گل یہ ہے جاویدؔ
کہ میکدے سے چلے خانقاہ تک پہنچے
ظہور الاسلام جاوید