فکر جھلساتی مجسم آگ ہے
یہ محبت ہے کہ پیہم آگ ہے
چڑھ گیا منصور ہنس کر دار پر
اور کہا اس نے یہ سرگم آگ ہے
ہم نے دریا برد کی خاکِ جنوں
سچ کہا تو نے کہ یہ غم آگ ہے
جل گیا جب طور موسی نے کہا
اے خدا! تیرا یہ مرہم آگ ہے؟
کیا بیگاژے گی یہ آتش اب مرا
یہ براہیموں کی ہمدم اگ ہے
نا۔سمجھ تو جھانک من مندر کبھی
تو مسلماں ہے کہ مبہم اگ ہے
جب سے میں نے کلمہ حق پژھ لیا
جل گیا باطل یہ اعظم اگ ہے
جوڑ رکھا ہے جو تو نے اے بشر
یہ زر و دینار و درہم آگ ہے
مہوش اشرف