غزل
فکر رکھتے ہیں کہاں ذہن اگر رکھتے ہیں
دشت بے آب میں جو تخم ہنر رکھتے ہیں
ہر نئی بات بھلا دیتی ہے پہلے کا خیال
وہ تو اخبار ہیں بس تازہ خبر رکھتے ہیں
مٹ گیا رنگ تعلق تو یہ چہرے کے نقوش
ایک اک خط تأثر میں خبر رکھتے ہیں
ایسے لوگوں کا ملا ہم کو زمانہ جو لوگ
کور بینا ہیں مگر ہم پہ نظر رکھتے ہیں
کوئی آہٹ ہے نہ دستک کہ بچھڑ جائے سکوت
جن کو دیوار میسر ہو وہ در رکھتے ہیں
جب بھی آتی ہے کسی سمت سے مقتل کی ہوا
دھیان آتا ہے ابھی دوش پہ سر رکھتے ہیں
عابد جعفری