فکرِمعاش عشقِ بتاں سے گزر گیا
دل سے گزرنا تھا مجھے جاں سے گزرگیا
گرچہ وہ قید و بندِ خیالات میں رہا
لب وا کیے تو حُسنِ بیاں سے گزر گیا
میں ڈھونڈتا رہا اُسے صحرائے وقت میں
اُس کی تلاش میں ،میں کہاں سے گزر گیا
تلخی مزاجِ یار کی اس بار دیکھ کر
میں بھی وفا کے بارِگراں سے گزر گیا
ترکش میں ایک تیر تھا تیرے نصیب کا
جو بے نشان ہو کے کماں سے گزر گیا
واعظ نہ درس دے مجھے اب ضبطِ عشق کا
نالہ وہی جو آہ و فغاں سے گزر گیا
کرتا تھا جو شمار گناہ و ثواب کا
وہ شخص اب تو سود و زیاں سے گزر گیا
دستِ دعا اُٹھا تو بنی بات پھر مرادؔ
ہر سیلِ درد و کرب ،جہاں سے گزر گیا
شفیق مراد