loader image

MOJ E SUKHAN

فیضان حسین — دردمند تہہ داری کا شاعر

فیضان حسین — دردمند تہہ داری کا شاعر

انجم سلیمی

چکوال سے جواں فکر شاعر فیضان حسین فیضی کی شاعری محض جدید اردو غزل کا تسلسل نہیں، بلکہ ایک ایسی داخلی دنیا کی کھوج ہے جو وقت، معاشرت اور وجود کے کئی چوراہوں سے بیک وقت گزر رہی ہے۔ میں نے اسی لئے ان کے لہجے کو "لرزتے ہوئے اضطراب” کی علامت کہا ہے،
لیکن یہ اضطراب صرف جذباتی آشوب نہیں، بلکہ شعری آگہی کی روشنی میں پگھلا ہوا وہ سیسہ ہے جو فیضان کی نظم و غزل میں قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔
ان کی غزلوں میں سب سے نمایاں عنصر مکالماتی طرزِ اظہار ہے۔ یہ مکالمہ محض محبوب یا سماج سے نہیں، بلکہ خود سے ہے۔ ان کی آواز میں ایک ایسی خودکلامی ہے جو قاری کے دل میں اپنی بازگشت چھوڑ جاتی ہے۔ مثلاً:
ہاں ٹھیک ہے تم مجھ سے تعلق نہ بڑھاؤ
اتنا تو بتا سکتی ہو تم ٹھیک تو ہو نا
یہ مصرعے بظاہر سادہ دکھتے ہیں، لیکن ان میں وہی دردمند تہہ داری چھپی ہے جو کسی پرانے خط کی روشنائی سے ابھر آتی ہے—بےساختہ، بےقرینہ، مگر سچ۔
فیضان کی شاعری میں تمثیل، تجرید اور طنز کی ایک خوبصورت لڑی موجود ہے۔ وہ کہیں یوسف و یعقوب کی حکایت کو ہجر کے استعارے میں ڈھالتے ہیں، تو کہیں بدن اور کائنات کو ایک نئی بصری ترکیب میں بُن کر ایک نیم فکری، نیم جمالیاتی کائنات تخلیق کرتے ہیں:
یہ کائنات بدن ہے، کسی حقیقت کا
یہ آسمان پہ پردے ہیں آسمانی سے
یہاں بدن صرف جسم نہیں بلکہ وجود کی علامت ہے، اور آسمانی پردے محض بصری رکاوٹ نہیں، وہ وہم، عقیدہ، حقیقت اور اس کے درمیان کھچتی ہوئی لکیر بھی ہیں۔
ان کے اشعار میں موجود خوداحتسابی اور اندرونی سوالات انہیں محض ایک رومانوی شاعر نہیں بناتے، بلکہ ایک فکری وجود کا نمائندہ بنا دیتے ہیں۔ وہ صرف "کہتے” نہیں، بلکہ اپنے کہے کو جھیلتے بھی ہیں۔ ایک مصرع میں اگر شکوہ ہے تو اگلے میں وہی شکوہ استغفار بن جاتا ہے۔ فیضان کی یہی اندرونی دیانت ان کے کلام کو آئندہ کی اردو شاعری میں ایک اہم آواز بنا سکتی ہے۔
یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ فیضان کی شاعری لفظوں میں چھپی خموشیوں کی شاعری ہے۔ وہ درد کو چیخ نہیں بننے دیتے، بلکہ ایک ایسی نرمی میں ڈھال دیتے ہیں جس سے قاری خود رو رو کر چپ ہو جائے۔
اگر فیضان فیضی اسی فکری شفافیت، جذباتی گہرائی اور فنی سچائی کے ساتھ شعر کہتے رہے، تو ان کا نام نہ صرف اردو غزل کے نئے لہجوں میں شمار ہوگا بلکہ یہ اپنے عہد کے "خاموش سوالوں” کا ایک نمائندہ چہرہ بھی بن جائے گا
یہ انتخاب دعوتِ مطالعہ ہے—
لفظوں کے درمیان چھپے سچ کی تلاش میں۔
خدا کرے کہ تمہارا بھی کوئ یوسف ہو
خدا کرے تمہیں اس کی قمیض تک نہ ملے
اپنی منہ زور انا اور غلط فیصلوں سے
آج ہم عین تباہی کے دہانے پہ نہیں؟
کاش وہ رہ نما چراغ ملے
جس سے منزل کا کچھ سراغ ملے
مجھ سے ملنا بھی کون چاہے گا
کون چاہے گا بد دماغ ملے
تمہارے دل میں کوئ خواہش نمو ہی نہیں
یہی وجہ ہے تمہارا کوئ عدو ہی نہیں
خدا بچائے حقیقت میں رائیگانی سے
زمین بیٹھنے لگتی ہے تیز پانی سے
ذرا سا دل کو کریدا تو ایک داغ ملا
اسی سے ہجر مسلسل کا پھر سراغ ملا
آسماں کے ستون دیکھنے سے
دوربینوں کو آزمایا گیا
تعریف تو ممکن نہیں تضحیک تو ہو نا
لوگوں میں کسی رائے کی تصدیق تو ہو نا
میں یہ نہیں کہتا کہ تصادم کی فضا ہو
پر اچھے برے لوگوں میں تفریق تو ہو نا
ہاں ٹھیک ہے تم مجھ سے تعلق نہ بڑھاؤ
اتنا تو بتا سکتی ہو تم ٹھیک تو ہو نا
آواز اٹھائی تھی یہی سوچ کے میں نے
اپنے ہیں مری بات پہ آمین کہیں گے
تم نے ہر وقت مجھے ہنستے ہوئے دیکھا ہے
اور تم لوگ مرے بارے میں کیا جانتے ہو
اس نے ہاتھوں پہ اک دیا بوسہ
جسم پر ہاتھ مل لیے میں نے
یہ لوگ محبت سے بہت دور تھے پہلے
صد شکر ابھی لوگوں میں رجحان بڑھا ہے
میں شعر تو پہلے بھی کہا کرتا تھا لیکن
یہ شوق ترے ہجر کے دوران بڑھا ہے
اس نے ہاتھوں پہ رکھے ہاتھ ستارے بدلے
اب تو دنیا بھی نہیں لوں گا تمہارے بدلے
میں نے بس ایک نظر اس کو ابھی دیکھا تھا
پیچھے اک ہارن بجا آگے اشارے بدلے
جب لوگ ہاتھ ہاتھ میں لے کر نکل پڑے
سمجھو حیات ہاتھ میں لے کر نکل پڑے
اس نے ہمارے ہاتھ میں جب ہاتھ دے دیا
ہم کائنات ہاتھ میں لے کر نکل پڑے
تم نے ہر وقت مجھے ہنستے ہوے دیکھا ہے
اور تم لوگ مرے بارے میں کیا جانتے ہو
یار تم لوگ محبت سے پکارو تو سہی
یار ہم لوگ محبت کا کہا مانتے ہیں
تم نے ہاتھوں پہ رکھے ہاتھ، ستارے بدلے
اب تو دنیا بھی نہیں لوں گا تمھارے بدلے
رکھ دے جو بدل کر دلِ ویران کی دنیا
دنیا میں کوئی اہلِ نظر ہے کہ نہیں ہے
درد سینے میں تری یاد سے اے جانِ غزل
ایسا اٹھتا ہے کہ اٹھنے بھی نہیں دیتا ہے
جس سے بھاگا ہوا تھا مدت سے
آئینے میں اسی کو دیکھا ہے
لوگ کہتے ہیں اسے میر کی متروک غزل
یہ نہیں دیکھتے پھر بھی وہ غزل میر کی ہے
مجھ پہ ہنستے ہوے جو شخص ابھی گزرا ہے
یہ فقط میری دعاؤں کی بدولت خوش ہے
میرے بارے میں سبھی لوگ بتاتے تھے اسے
یہ مسافر ہے کسی وقت بھی جا سکتا ہے
تو بول کے پہچان تری سامنے آئے
کپڑا تو اکڑ جاتا ہے ہلکے سے کلف سے
لوگوں سے مرے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو
وہ کیسا تیقن ہے جو تصدیق سے آئے
پہلے کردار کے سر پر تھی کہانی ساری
اب سے کردار کہانی کا سہارا لے گا
لڑکی ہے مرے گاؤں کی اور اس کو غزل میں
لاؤں گا میں دوشیزہ ء قفقاز بنا کر
ابھی یہ وہم دل نامراد باقی ہے
ہمارے بیچ کہیں اعتماد باقی ہے
اپنا تو کوئی دوست بھی ایسا نہیں جس سے
مشکل میں کہیں آج ضرورت ہے تمہاری
فیضان حسین