غزل
قدموں پہ ترے دولت و دیں وار گئے ہم
ہاں اہل ہوس جیت گئے ہار گئے ہم
سر تھا تو رہا ایک ہی غم ایک ہی سودا
در تیرا سلامت تھا تو سو بار گئے ہم
ہاں ہاں وہ امنگوں کے امنڈتے ہوئے دریا
ڈوبے ہیں پھر ابھرے ہیں تب اس پار گئے ہم
اٹھی ہے تو اے موج بلا سر سے گزر جا
اب تک تو نہ ساحل پہ سبک سار گئے ہم
سچ ہے کہ نہ یوسف تھے نہ یوسف کے خریدار
کنعاں سے مگر مصر کے بازار گئے ہم
اک عمر تراشا کیے جینے کے بہانے
تا آںکہ سر اوج سر دار گئے ہم
سعید الظفر چغتائی