قِصّہَ ءِ ہِجر سُنانے کو نہیں آیا ہوں
میَں یہاں طِفل تَماشے کو نہیں آیا ہوں
تیرا ہر بوجھ اُٹھاؤں گا تِرے ساتھ یہاں
میں کِسی جھوٹے دِلاسے کو نہیں آیا ہوں
مَیں اَگر چُپ ہوں تو اَچھا ہے کہ چُپ رَہنے دو
کیونکہ مَیں آگ لَگانے کو نہیں آیا ہوں
کہنے آیا ہوں سَمجھ دار بَنو ، ہوش کرو
کون کیا ہے ؟ یہ بَتانے کو نہیں آیا ہوں
مُشتعِل مَت ہو تَحمُل سے مرِی بات سُنو
مَیں کِسی طور بھی جَھگڑے کو نہیں آیا ہوں
اَبھی بھی وَقت ہے تَلوار ہَٹا لو اَپنی
پھِر سے کہتا ہوں میں حَملے کو نہیں آیا ہوں
یہ جو کم بَخت مِرا دِل ہے ٹَھہرتا ہی نہ تھا
صاف کہتا ہوں مَنانے کو نہیں آیا ہوں
حَضرتِ قیَس بھی ناحق ہی خَفا ہیں دانِش
میَں کوئی دَشت بَسانے کو نہیں آیا ہوں
دانش عزیز