غزل
لب پر مچلتے لفظوں کو چکھ کر نہ دیکھ لے
وہ پیڑ نیم کا مرے اندر نہ دیکھ لے
دل خواہشوں کے کوچے میں نکلا تو ہے مگر
وہ طفل درد پھر کہیں پتھر نہ دیکھ لے
رستے کئی بدل کے میں لوٹا ہوں شہر سے
ڈر تھا کہ وہ عزیز کہیں گھر نہ دیکھ لے
برہم بہت ہے آج وہ ہر ایک شخص سے
اپنا ہی آئنے میں وہ پیکر نہ دیکھ لے
بوندیں لہو کی سونگھتی بلی وہ درد کی
دل کا لہولہان کبوتر نہ دیکھ لے
ہیں پودا لاجونتی کا خوابوں کی مورتیں
اکرامؔ وقت ہاتھ لگا کر نہ دیکھ لے
صبا اکرام