غزل
لب کو تیرے مے کشی دے جاؤں گی
اور زباں کو شاعری دے جاؤں گی
یوں نظر انداز نہ کر ہم نشیں
تیری پلکوں پر نمی دے جاؤں گی
راس نہ آئے گی تجھ کو بزم خاص
انجمن کو وہ کمی دے جاؤں گی
خالی ہوگا دل کا جب کشکول تب
میں انا کو مفلسی دے جاؤں گی
تو بظاہر ہوگا اک دانش مگر
قیس سی دیوانگی دے جاؤں گی
کاش تو ہوتا تجسس آشنا
روح کو میں تشنگی دے جاؤں گی
تیرے محور کا قمر بن کر شغفؔ
میں سدا کی تیرگی دے جاؤں گی
پروین شغف