غزل
لباس فقر میں ہم کو جو خاکسار ملے
انہیں کے در پہ سلاطین روزگار ملے
وہ راز جس سے سلگتا رہا ہے دل کہہ دیں
ہمارے دل سا اگر کوئی رازدار ملے
شراب خانۂ چشتی میں بھی نظر آئے
ہمیں جو الفت نانک کے بادہ خوار ملے
غم جہاں نگری کا سفر قیامت تھا
ہر ایک ذرے کے سینے میں کوہسار ملے
کوئی بھی دورئ منزل نہیں اگر درشنؔ
جہاں کو میرا جنون خرد شکار ملے
درشن سنگھ