غزل
لمحات زندگی میں کچھ ایسے بھی آئے ہیں
دل پر پڑی ہے چوٹ تو ہم مسکرائے ہیں
یوں ہم نے گلستاں سے اندھیرے مٹائے ہیں
بجھتے ہوئے چراغ لہو سے جلائے ہیں
کچھ غم نہیں جو پھیلی ہے ہر سو غموں کی دھوپ
سر پر ہمارے آپ کی زلفوں کے سائے ہیں
ہوں منتظر وہ آئیں تو ان پر کروں نثار
پلکوں پہ میں نے چند ستارے سجائے ہیں
دور خزاں بھی دل سے فراموش ہو گیا
اب کے برس بہار نے وہ گل کھلائے ہیں
ان کا مقام کم نہیں لات و منات سے
لوگوں نے خواہشات کے جو بت بنائے ہیں
سب کے دلوں میں آتش نفرت ہے شعلہ زن
دانشؔ ہم آج کون سی بستی میں آئے ہیں
دانش فراہی