loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 14:23

لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے

لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے
وقت خوشبو ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے

آبگینوں کا شجر ہے کہ یہ احساس وجود
جب بکھرتا ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے

دل کا یہ شہر صدا اور یہ حسیں سناٹا
وادئ جاں میں اترتا ہی چلا جاتا ہے

اب یہ اشکوں کے مرقعے ہیں کہ سمجھتے ہیں نہیں
نقش پتھر پہ سنورتا ہی چلا جاتا ہے

خون کا رنگ ہے اس پہ بھی شفق کی صورت
خاک در خاک نکھرتا ہی چلا جاتا ہے

واپسی کا یہ سفر کب سے ہوا تھا آغاز
نقش پا جس کا ابھرتا ہی چلا جاتا ہے

جیسے تنویرؔ کے ہونٹوں پہ لکھی ہے تاریخ
ذکر کرتا ہے تو کرتا ہی چلا جاتا ہے

تنویر احمد علوی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم