غزل
لمحہ کوئی ہمارا نہیں ہے خوشی لیے
لیل و نہار آئے غمِ زندگی لیے
اُن پہ بھی ہے سوار شبِ غم کا اب ستم
پھرتے تھے جو چراغ بکف روشنی لیے
دولت اڑا کے لے گئے جو دنیا دار تھے
مبہوت ہم کھڑے تھے فقط آگہی لیے
چھوڑا ہے کس کو عشق و محبت نے دہر میں
جو بھی ملا، ملا ہے غمِ عاشقی لئے
ہر ہر قدم پہ خار مرے میزبان ہیں
ان کے لیے ہیں راہوں میں گل تازگی لیے
رس کیوں نہ گلے کان میں آواز دوست کی
صوتِ حبیب ہی بھی عجب نغمگی لیے
جس موڑ پہ ملے تھے منوّر سے ہم کبھی
ہونٹوں پہ ہم ہیں اپنے وہیں تشنگی لیے
منور جہاں زیدی