غزل
لوگ جو دل فگار ہوتے ہیں
چلتے پھرتے مزار ہوتے ہیں
جو محبت میں خار ہوتے ہیں
صاحب صد وقار ہوتے ہیں
جن کے دامن میں خار ہوتے ہیں
قدردان بہار ہوتے ہیں
جو محبت شعار ہوتے ہیں
سازشوں کا شکار ہوتے ہیں
میری بربادیٔ محبت پر
آپ کیوں شرمسار ہوتے ہیں
ان کے قول و قرار کیا کہئے
صرف قول و قرار ہوتے ہیں
اپنا مطلب نکالنے والے
کس قدر ہوشیار ہوتے ہیں
پرخلوصوں کی پوچھتے کیا ہو
خار ہوتے تھے خار ہوتے ہیں
کیا خبر تھی کہ راہ الفت میں
ہر قدم خار زار ہوتے ہیں
کس توقع پہ لوگ اے عاصیؔ
زندگی پر نثار ہوتے ہیں
پنڈت ودیا رتن عاصی