لوگ حیران ہیں اس پار سے ہوتا کیا ہے
ایک دیوار ہے دیوار سے ہوتا کیا ہے
اس کی عادت ہے تماشا سا لگائے رکھنا
اور اس صاحبِ اسرار سے ہوتا کیا ہے
بادشاہی تو فقیری میں بھی ہو جاتی ہے
تخت سے تاج سے دربار سے ہوتا کیا ہے
ہم نے اک لفظ سے تاریخ بدل کر رکھ دی
کر کے دکھلایا کہ انکار سے ہوتا کیا ہے
کوئی یوسف نظر آئے تو ذرا پوچھئے گا
ایک بھی ہو تو خریدار سے ہوتا کیا ہے
روز سمجھاتا ہوں خود کو کہ ترے پاس ہے کیا
ایک کردار ہے کردار سے ہوتا کیا ہے
پیش کرنی ہے تو پھر دولتِ دل پیش کرو
آجکل درہم و دینار سے ہوتا کیا ہے
طارق نعیم