مجھے شوق دید میں پا کے گم وہ نقاب الٹ کے جو آ گئے
نظر اور کچھ بھی نہ آ سکا وہ میری نظر میں سما گئے
کہاں اپنی ایسی تلاش تھی کہاں اپنی ایسی تھی جستجو
یہ تیرے کرم ہی کی بات ہے تیری بارگاہ میں آ گئے
مجھے تیرہ راہوں کا غم نہیں میں گزر ہی جاؤں گا ہم نشیں
وہ دکھا کے مجھ کو رخ مبیں میرے دل میں شمع جلا گئے
نہیں بے خبر وہ کسی طرح اسے ہر طرح کا شعور ہے
جسے اپنی چشم کرم سے وہ کبھی ایک جام پلا گئے
مجھے آزما کے تو دیکھ لیں غم دو جہاں کا امین ہوں
یہ سمجھ لیا ہے کسی نے کیوں کہ جہاں سے اہل وفا گئے
تیرے ہجر میں ہے وہ حال اب کہ بیاں ہے جس کا محال اب
لیا پوچھ جس نے بھی حال جب تو کچھ اشک آنکھ میں آ گئے
وہی بزم عیش و نشاط ہے وہی نغمہ ہے وہی ساز ہے
نہیں پھر بھی دل کو سکون کچھ وہ پیام ایسا سنا گئے
یہی فکر ہے مجھے ہر گھڑی نہ لگا دیں آگ چمن کو بھی
جو شرارے برق کے باغباں میرا آشیانہ جلا گئے
تیرے غم کی حسرت و آرزو ہے زبان عشق میں زندگی
جنہیں مل گیا ہے یہ مدعا وہ مقام زیست بھی پا گئے
نہیں کچھ یہ مجھ ہی پہ منحصر ہے یہی جہاں کی زبان پر
وہی ذرے آج ہیں ضو فشاں تیری رہگزر میں جو آ گئے
یہ جو کیف بادہ غزل میں ہے اسے کیوں کمال سخن کہوں
یہ تو صادقؔ اس کا سرور ہے جو نگاہ سے وہ پلا گئے
صادق دہلوی