مجھے علم تھا
مجھے علم تھا
کہ تو چاہتوں کے غرور میں
سرِ راہ آٸے گا ایک دن
مجھے یوں ستاٸے گا ایک دن
مجھے بھول جاٸے گا ایک دن
مجھے علم تھا
مجھے علم تھا
کہ تری انا میں فتور ہے
کہ تو پاس ہوتے ہوٸے بھی
کوسوں دور ہے
کہ بہار ، گل تو کھلاٸے گی
مجھے زہر غم کا پلاٸے گی
مجھے مار ڈالے گی ایک دن
یہ مرا جنازہ اٹھاٸے گی
مجھے علم تھا
مجھے علم تھا
ترا پیار
صرف مرے لٸے ہی گناہ ہے
مجھے علم تھا
کہ تری نظر میں
ہزار چہرے ہیں جلوہ زن
ترے دل میں ہے کوٸی مہ جبیں
کوٸی گلبدن
کہ نفس نفس پہ لکھا ہوا ہے
کسی کا نام گہے گہے
سرِ انجمن
مجھے علم تھا
مدیحہ شوق