محبت کا سبق سکھلا رہی ہوں
وہ پتّھر ہے جسے پگھلا رہی ہوں
مرے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے
میں جتنا وقت کو بہلا رہی ہوں
یقیں جانو کسی پچھلے جنم میں
تمہاری ہی تو میں لیلٰی رہی ہوں
رہا دل میں کبھی لب تک نہ آیا
میں وہ بے معنی سا جملہ رہی ہوں
دیا تھا دل کو اک ناسور تم نے
میں سارے جسم میں پھیلا رہی ہوں
کہاں سے ہے فصیلِ دل شکستہ
میں یہ دشمن کو کیوں بتلا رہی ہوں
مجھے کہتا تھا جو پھولوں کی رانی
اُسے کہنا کہ میں کمہلا رہی ہوں
ثبین سیف