محبّت کا دیا جل کر بجھا ایسے نہیں ہوتا
تو جاری ظلمتوں کا سلسلہ ایسے نہیں ہوتا
ہوئے ہو جیسے تم کوئی خفا ایسے نہیں ہوتا
کوئی بھی زندگی بھر کو جدا ایسے نہیں ہوتا
لہو کا رنگ بھرنا پڑتا ہے لفظوں کے خاکوں میں
مکمل قصہءِ عہدِ وفا ایسے نہیں ہوتا
بغیر اخلاص کے کیوں بہرِ سجدہ سر جھکاتا ہے
اے زاہد بندگی کا حق ادا ایسے نہیں ہوتا
مزاجوں میں نہ جب تک نرم گوشے کار فرما ہوں
دلوں کا فاصلہ دیکھو فنا ایسے نہیں ہوتا
نہ جبتک خون کےچھینٹے لگائے جائیں گلشن میں
کسی بھی شاخ پر پتا ہرا ایسے نہیں ہوتا
مرے سینے میں تیرے لمس کی ٹھنڈک نہ آ جاتی
میں تنہائی کی آتش میں جلا ایسے نہیں ہوتا
بہت دامن بچا کر جھاڑیوں میں چلنا پڑتا ہے
گلوں تک جانے کا طے راستہ ایسے نہیں ہوتا
مری میّت پہ آ کر مسکرانا بھی ضروری ہے
"مرے قاتل حسابِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا”
سرِ محفل نظر ان کی نہ اے مختار پڑ جاتی
تو میری سمت کوئی دیکھتا ایسے نہیں ہوتا
مختار تلہری ثقلینی