محدود اپنی سوچ ہے جس جانِ جان تک
مَیں اُس کو پا سکوں گا , نہیں یہ گمان تک
طے کس طرح کروں گا مَیں تنہا مسافتیں
لُٹتے ہیں اب رَہوں میں یہاں کاروان تک
کارِ گناہ و جرم رُکے گا وہ کس طرح
مشغول جس میں پائے گئے حُکمران تک
حیران تھا , بنایا تھا جس نے مجھے ہدف
پہنچا پلٹ کے تیر جب اس کی کمان تک
امرِ محال ہوتا ہے پھر اُس کو روکنا
آ جائے دل کی بات جب ازخود زبان تک
سیّارگان و مَہ کا نہ کچھ ہم سے پوچھیے
اوجھل ہے اپنی آنکھ سے اب آسمان تک
تقسیم اہلِ مسند و منصب میں ہو گئی
امداد جو پہنچنا تھی اِک بے امان تک
چرچا ہے جس کا لشکرِ اعداء میں اِن دنوں
پہنچی نہیں خبر وہ مرے مہربان تک
عادِل غلط گمان ہیں سمجھے ہوئے ہیں جو
یہ ہمہمہءِ زیست ہے بس اِس جہان تک
عادِل یزدانی چنیوٹ