Mudat Guzri Honto per bin Baat ka mosim Thahar gaya
مدت گزری ہونٹوں پر بن بات کا موسم ٹھہر گیا
تب سے جیسے آنکھوں میں برسات کا موسم ٹھہر گیا
اک لمحے کی خواہش ہے کہ میرے دل کا موسم ہو
جان کی بازی ہار گئے اب مات کا موسم ٹھہر گیا
زخم بھی لگتے جایئں تو وہ شوق رفو کب رکھتے ہیں
ضدی سرکش لوگوں میں کس بات کا موسم ٹھہر گیا
ایک ہی ساکت خواب ہو جیسے اور ہزاروں تعبیریں
سوتی جاگتی آنکھوں میں بس رات کا موسم ٹھہر گیا
وادی کی گل پوش زمیں پر برف نے کیا لکھ ڈالا ہے
جلتے جسم بھی سرد ہوے جزبات کا موسم ٹھہر گیا
پاس وفا کا جزبہ تو قرآن کا پر تو ہوتا ہے
اس نکتے پر اب تو میری زات کا موسم ٹھہر گیا
سعدیہ سراج