مرحلہ طے کوئی بے منت جادہ بھی تو ہو
غم بڑھے بھی تو سہی درد زیادہ بھی تو ہو
ایسی مشکل تو نہیں دشت وفا کی تسخیر
سر میں سودا بھی تو ہو دل میں ارادہ بھی تو ہو
ذہن کا مشورۂ ترک طلب بھی برحق
ذہن کی بات قبول دل سادہ بھی تو ہو
کہیں بادل کہیں سورج کہیں سایہ کہیں دھوپ
مرے معبود ترا کوئی لبادہ بھی تو ہو
پیار میں کم تو نہیں کم نگہی بھی اس کی
ہاں تنک ظرفیٔ احساس کشادہ بھی تو ہو
عاشقی سرمد و منصور سے کچھ خاص نہیں
مست لیکن کوئی بے زحمت بادہ بھی تو ہو
ظرف ایذا طلبی غم بھی پرکھ لیں گوہرؔ
اس سے اک روز نہ ملنے کا ارادہ بھی تو ہو
گوہر ہوشیارپوری