مری ہتھیلی میں لکھا ہوا دکھائی دے
وہ شخص مجھ کو برنگ حنا دکھائی دے
اسے جو دیکھوں تو اپنا سراغ پاؤں میں
اسی کے نام میں اپنا پتا دکھائی دے
روش پہ جلیں اس کی آہٹوں سے چراغ
عجب خرام ہے آواز پا دکھائی دے
جو مہرباں ہے تو کیا مہرباں خفا تو خفا
کبھی کبھی تو وہ بالکل خدا دکھائی دے
سماں سماں ہے دھندلکا دھواں دھواں منظر
جدھر بھی دیکھوں بس اک خواب سا دکھائی دے
جنوں نے بخش دیں نظروں کو وسعتیں کیا کیا
کہ ذرے ذرے میں صحرا بچھا دکھائی دے
نہ میری طرح کوئی دیکھ لے اسے بلقیسؔ
میں کیوں بتاؤں مجھے اس میں کیا دکھائی دے
بلقیس ظفیر الحسن