مسلسل ریگزاروں کا سفر ہے
محبت اصل میں کار دگر ہے
حقیقت کیا ہے اور کیا ہے فسانہ
یہ سب کچھ منحصر حالات پر ہے
رگوں میں آگ سی بھر دے تو صحرا
سکوں سے نیند آ جائے تو گھر ہے
دیار دیدہ و دل میں ابھی تک
خوشی نا معتبر غم معتبر ہے
جو کل صحرا نوردی پر تھا مائل
وہ اب منت کش دیوار و در ہے
ازل سے ہوں سزاوار مسافت
سفر پیہم سفر پیہم سفر ہے
سراپا طفل ناداں رازؔ بن جا
خیال خاطر احباب گر ہے
رفیع الدین راز