ممکن ہے زندگی کوئی رستہ نکال دے
شاخوں پہ کوئی پھول ہی تازہ نکال دے
جدت سے ہم کو اپنی قدامت بھلی حضور
اخلاقیات کا جو جنازہ نکال دے
ا ک دن نکال کوئی ملاقات کے لیے
اس حبس میں سکون کا گوشہ نکال دے
اب کاش کوئی پھر سے مجھے اعتماد دے
دل سے جو چھوڑ جانے کا خدشہ نکال دے
سب پرچیوں پہ ایک ہی لکھتی رہی ہوں نام
تقدیر جانے کون سا قرعہ نکال دے
گر چاہتے ہو جینے کا آسان راستہ
پھر زندگی سے لفظ بھروسہ نکال دے
مصروف لوگ وقت بھی دیتے ہیں اس طرح
جیسے کوئی زکوۃ یا صدقہ نکال دے
فوزیہ شیخ