غزل
مِری تقدیر کی آب و ہَوا لے کر نہیں آئے
برائے نام بادل تھے، گھٹا لے کر نہیں آئے
تمھاری خیریت مطلوب تھی آنا پڑا ہم کو
ہم اپنے دل میں کوئی مدّعا لے کر نہیں آئے
دَمِ آخر بھی بچے کی زباں پر بس یہ جملہ تھا
مِرے ابّو ابھی تک کیوں دوا لے کر نہیں آئے
خدا ہے خالقِ ارض و سما اے منکرو، مانو
تم اپنے ساتھ یہ ارض و سما لے کر نہیں آئے
مِری قسمت میں شاید حبس کا موسم ہی لکھا تھا
ترے دامن کے جھونکے بھی ہَوا لے کر نہیں آئے
گھرے جب ناگہانی آفتوں میں لوگ، تب سوچا
نصیبِ دشمناں ماں کی دعا لے کر نہیں آئے
ہمارے ہی تعاقب میں چلی آتی ہے کیوں آندھی
جلا کر ساتھ اپنے ہم دیا لے کر نہیں آئے
شاعر علی شاعر